مغرب میں مسلمان ہونا جرم بن گیا

کینیڈا میں ایک ہی خاندان کے چار افراد کو دہشت گردی کے واقعے میں، ٹرک چڑھا کر اُس وقت موت کی نیند سلا دیا گیا جب وہ سڑک کنارے واک کر رہے تھے۔ مرنے والوں میں خاندان کی تین نسلیں شامل تھیں یعنی ماں، بیٹا، بہو اور پوتی جبکہ ایک دس سالہ بچہ اس دہشت گردی کے واقعہ میں شدید زخمی ہوا۔ 

دہشت گردی کے شکار اس خاندان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ مسلمان تھے۔ اُن کا تعلق پاکستان سے تھا اور وہ کئی سال پہلے کینیڈاگئے اور وہیں سیٹل ہو گئے۔ اسلام اور مسلمانوں سے مغرب میں بڑھتی ہوئی نفرت اور بغض کا یہ تازہ خونی نتیجہ ہے جس سے امریکا، کینیڈا، برطانیہ، یورپ ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور دوسرے مغربی ممالک میں رہنے والے مسلمانوں میں تشویش بڑھ گئی اور وہ اپنے آپ کو مزید غیر محفوظ تصور کرنے لگے ہیں۔

 اسی طرح بھارت، برمااور سر ی لنکامیں رہنے والے مسلمانوں کے ساتھ بھی ناروا سلوک کیا جا رہا ہے۔ بھارت میں تو مسلمانوں کو تشدد کر کے مارنے کے واقعات روز کا معمول بن چکے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی، تشدد، ہراسانی کے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہو چکا۔ ایک غیر مسلم مارا جائے اور مارنے والا مسلمان ہو تو اُسے تو فوری طور پردہشت گردی کا واقعہ قرار دے دیا جاتا ہے لیکن جہاں شکار مسلمان ہوں اور مارنے والا غیر مسلم ہوتو ایسے واقعات کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی اور صاف محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اُن کی نظر میں مسلمان کے خون کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔

 ایک دو سال پہلے نیوزی لینڈ میں مسجد پر حملے کے نتیجے میں درجنوں مسلمانوں کی شہادت پر وہاں کی وزیراعظم کی طرف سے مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کا جو اظہار کیا گیا وہ ایک ایسا عمل تھا جس کی دنیا بھر میں تعریف کی گئی اور جس کی اس وقت اشد ضرورت ہے لیکن اُس کی تقلید کرنے والے مغرب میں کم ہی نظر آئے بلکہ مسلمانوں کے خلاف نفرت اور بغض کا اظہار ریاستی لیول تک جاری ہے اور اُس کی سب سے بڑی مثال فرانس کا صدر میکرون ہے جس نے اسلام مخالف گستاخانہ مہم کی قیادت کی اور نفرت کے ایسے بیج بوئے جس سے دنیا مزید غیر محفوظ ہوئی اور اس نفرت کا شکار فرانس خود بھی ہو رہا ہے جہاں گزشتہ روز ہی میکرون کو ایک شہری نے منہ پر تھپڑ رسید کیا جس کو ساری دنیا نے دیکھا۔ 

یقیناً گستاخی کرنے والے دنیا میں بھی ذلیل ہوں گے اور آخرت میں بھی۔ اُن کے لئے ذلت ہی ذلت ہے۔ مغرب میں اگر اسلاموفوبیا کو ریاستی سطح پر بلواسطہ یا بلاواسطہ سپورٹ کیا جا رہا ہے تو بھارت میں ہندوتوا مائنڈ سیٹ نے وہاں مسلمانوں کا جینا مشکل بنا دیا ہے۔ 

اسلام اور مسلمانوں سے نفرت اور اس نفرت کو بڑھاوا دینے میں مغرب اور بھارت کی طرف سے ریاستی لیول تک سرپرستی رہی ۔ 9/11 کے بعد مسلمانوں کو نشانے پر رکھا گیا، لاکھوں مسلمانوں کو شہید کیا گیا اور کئی مسلمان ممالک کو تباہ و برباد کرنے کی سازش کی گئی۔

 اس دوران مسلمانوں کے گروہوں میں بھی شدت پسندی کے رجحانات پیدا ہوئے اور پاکستان سمیت کئی ممالک میں دہشت گردی کے واقعات ہوئے جن کا شکار مسلمان بھی ہوئے اور غیر مسلم بھی۔ 

موجودہ حالات میں مسلمانوں اور اُن کے حکمرانوں کو اگر ایک طرف غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کے تحفظ کے لئے اسلاموفوبیا کے خلاف یک زبان ہونا پڑے گا۔ اسلام مخالف سازشوں اور مسلمان ممالک کو ایک ایک کر کے تباہ کرنے کے منصوبوں کو ناکام بنانا پڑے گاتو دوسری طرف بحیثیت مسلمان ہمارے ذمہ داری ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنے ملک اورمعاشرہ میں رہنے والی غیر مسلم اقلیتوں کا خیال رکھیں اور جس نفرت اور ظلم کا اظہار مغربی ممالک ، بھارت، اسرائیل اور دوسری غیر مسلم ریاستوں میں مسلمانوں کے خلاف کیا جا رہا ہے اُس کا بدلہ کسی طور پر اپنے ملک میں رہنے والی اقلیتوں سے نہ لیں۔ 

بھارت میں انتہا پسند ہندوؤں نے بابری مسجد کو شہید کیا تو جواب میں ہمارے ہاں بھی مشتعل افراد نے کئی مندر یہاں توڑ ڈالے جو سراسر زیادتی تھی اور اگر ایسا ہی ہوتا رہا تو پھر ہم میں اور اُن میں کیا فرق رہے گا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔