دو نہیں ایک پنجاب

مجھے یقین ہے کہ میرے کالم کی اشاعت تک قاسم خان سوری کے خلاف تحریک عدم اعتماد دوسری بار واپس ہو چکی ہوگی مگرقومی اسمبلی میں ہونے والی ہنگامہ آرائی اور طوفان بدتمیزی کے بعد پارلیمینٹرینز کا مختلف ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر اپنی پارٹی اور ساتھیوں کا دفاع کرنا انتہائی افسوسناک عمل ہے۔

 یہ مسئلہ کسی سیاسی جماعت کا نہیں بلکہ یہ عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کا ہے، ووٹوں کی طاقت سے حلقے کے عوام اپنے نمائندے کو ایوان میں پہنچاتے ہیں اور پھر یہ نمائندے ایوان میں کھڑے ہو کر اس طرح کا رویہ اختیار کریں جو ٹی وی پر بھی سنسر کئے بغیر نہ چلایا جاسکے تو یہ لمحہ فکریہ ہے۔

 البتہ سیاسی ماحول میں صرف برے کی رپورٹ نہیں بلکہ کچھ اچھے کی رپورٹ بھی نظر آرہی ہے۔بجٹ کو سراہا جارہا ہے۔ اس بجٹ سےپنجاب میں پی ٹی آئی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ سیالکوٹ کے ضمنی انتخابات کے نتائج یقینا اس مرتبہ پہلے سے مختلف ہوں گے۔ پی ٹی آئی کے امیدوار قیصر بیرار کامیاب ہو جائیں گے۔ ویسے قیصر بیرار سیالکوٹ میں اپنے رفاہی کاموں کی بدولت بہت مقبول ہیں۔

اس ہفتے کے آغاز میں جب پنجاب اسمبلی کی نئی عمارت میں نئے مالی سال کا بجٹ پیش کیا گیا تو عثمان بزدار کی آمد میں بھی کچھ نیا پن تھا۔ ان کے با اعتماد نظر آنے کے ساتھ ساتھ اسمبلی میں مودبانہ انداز میں داخل ہونے کے بعد جب اپوزیشن بنچوں کے پاس سے گزرے تو قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز کو سلام کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی۔

کم از کم اس بات سے تو اطمینان ہوا کہ ابھی بھی سیاست بغض اور کینہ سے کچھ حد تک پاک ہے۔ سیاست میں رکھ رکھائو اور ادب کے تقاضے آج بھی فالو کئے جارہے ہیں۔ ادب آداب اپنی جگہ مگر تحریک انصاف کا پنجاب میں ایک لیڈرشپ کے ساتھ 3 سال مکمل کرنا، ناقدین کے نشتر برداشت کرنا، اسی لیڈرشپ کے خلاف سازشیں سامنے آنا اور آئے روز میڈیا پر بے بنیاد خبروں سے افواہوں کا بازار گرم ہونا۔ 

 ان سب باتوں کے باوجود اتحادی جماعتوں اور سینئر وزراء کو ساتھ لیکر چلنا، اپنے ہونے کو باور کرانا اور تہذیب کا دامن بھی ہاتھ سے نہ چھوڑنا، یہ سب لیڈرشپ کی خوبیاں ہیں جو اس 3 سالہ سفر کے مشاہدے میں نظر آتی ہیں۔ عثمان بزدارسیاسی میدان میں بھی فرنٹ لائن پر نظر آئے اور ترقیاتی انتظام میں بھی ان کی فیلڈ میں موجودگی سامنے آئی۔ تاہم یہ بجٹ موجودہ سیاست اور مستقبل کی حکمت عملی کے حوالے سے انتہائی اہم موڑ ثابت ہوا۔

بہرحال سیاست کا اصل معیار جانچنے کیلئے اس وقت بجٹ ہی واحد پیمانہ ہے۔ پنجاب کا بجٹ بلاشبہ غریب کا بجٹ ہے، اس مسکین اور بے سہارا مزدور کا بجٹ ہے جو 3 وقت کی روٹی پوری کرنے کیلئے ترستا رہا ہے، ورکرز کی اجرت ساڑھے 17ہزار سے بڑھا کر 20 ہزار کردینا میری نظر میں اس بجٹ کی اہم ترین ہائی لائٹس میں سے ایک ہے۔

 اس کے ساتھ ساتھ غریب کسان جو فجر سے سورج ڈھلنے تک اپنے کنبے سمیت کھیتوں میں محنت کرتا ہے، یہ بجٹ اس محنت کش کی محنت کا صلہ ہے۔عثمان بزدارنے زرعی شعبے پر ٹیکس میں اضافے کے حوالے سے تجویز کو مسترد کیا۔ اس کے علاوہ ترقیاتی بجٹ میں شعبۂ زراعت اور فوڈ سیکورٹی کیلئے 32 ارب روپے مختص کئے۔

 زراعت اور لائیواسٹاک کے شعبے کے بجٹ کیلئے نئے مالی سال میں 300 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے اور محکمہ آبپاشی کیلئے 31 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ ان اقدامات سے فصلیں سیراب ہونے کے ساتھ ساتھ کسان کی زندگی میں معاشی استحکام کی امید کی جاسکتی ہے۔اگر شعبہ تعلیم کو دیکھا جائے تو ترقیاتی بجٹ میں 23فیصد اضافے کے ساتھ بنیادی تعلیم کیلئے 35 ارب روپے جبکہ اعلیٰ تعلیم کیلئے 300 فیصد اضافے کے ساتھ 15 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔

 میں امید کرتا ہوں اسٹیٹ آف دی آرٹ یونیورسٹیز کا جال ہر ضلع میں پھیلائے جانے کا خواب جلد پورا ہوگا۔ ڈیجیٹل گورننس کیلئے 5 ارب، سیاحت کیلئے سوا ارب اور مقامی سطح پر ترقیاتی پروگراموں کیلئے 100ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ترقیاتی بجٹ میں انفراسٹرکچر کیلئے 66 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں تاکہ عوام کا طرز زندگی اور ماحول بہتر بنایا جاسکے۔

ان سب منصوبوں کے علاوہ میری نظر میں سب سے اہم حصہ وہ ہے جو جنوبی پنجاب کو دیا گیا۔ عثمان بزدارکی حکومت اس صوبے کی واحد حکومت ہے جس نے جنوبی پنجاب کی بات کی اور اپنی بات کو پورا کیا اور جنوب کے عوام کی لاج رکھی ہے۔ گزشتہ مالی سال کے بجٹ کی تقریر کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ اس وقت جب کہ میں تقریر کر رہا ہوں،جنوبی پنجاب کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور ایڈیشنل آئی جی کا نوٹیفیکیشن جاری کیا جاچکا ہے۔ 

اور اب ایک سال بعد جبکہ جنوبی پنجاب میں انتظامی بہتری بھی نظر آرہی ہے، اس موقع پر ترقیاتی بجٹ کا 35 فیصد حصہ جنوب کیلئے مختص کرنا ایک خوش آئند عمل ہے۔ اس سے پسماندگی کی مثال جنوبی پنجاب کو ترقی کا محور بننے میں شاید زیادہ دیر نہ لگے کیونکہ یہ پنجاب کا وہ حصہ ہے جو دہائیوں سے نظر انداز کیا گیا، یہاں پر ہونے والا چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا منصوبہ اپنی پہچان آپ بن رہا ہے۔ میری دعا ہے کہ جب یہ حکومت پنجاب میں اپنے پانچ سال پورے کرے تو جنوبی پنجاب دیگر صوبوں کیلئے تیز تر ترقی کا ماڈل ثابت ہو۔ دو نہیں ایک پنجاب نظر آئے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔