20 جولائی ، 2021
ایک ہی سانس میں پہلے کہتے ہیں پاکستان کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے اور پھر ساتھ ہی کہتے ہیں کہ افغانستان میں طالبان کی کامیابیوں کو روکنے کے لیے پاکستان افغان حکومت کی مدد کرے اور افغان سیکورٹی فورسز کے ساتھ مل کر اُنہیں کچلے۔
یعنی اُس اشرف غنی کی حکومت کو بچانے کے لیے پاکستان افغان طالبان کو اپنا دشمن بنائے جس نے گزشتہ برسوں میں حامد کرزئی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بھارت کو اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے خوب مواقع فرہم کیے اور پاکستان میں دہشت گردی کے لیے ملک دشمنوں کی ہر طرح سے مدد کی۔
جیو کےسینئر اینکر سلیم صافی کو دیے گئے انٹرویو میں اسفندیار ولی کے صاحبزادے نے جو باتیں کیں وہ تضادات سے بھری ہوئی تھیں۔ وہ جو کچھ کہتے ہیں اور جو کہے بغیر کہنا چاہتے ہیں‘ اُس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ پاکستان افغانستان کے معاملات میں مداخلت ضرور کرے، فوجی مدد بھی فراہم کرے لیکن اس سب کا مقصد اشرف غنی کی حکومت کو مضبوط بنانا اور افغان طالبان کو کچلنا ہونا چاہیے۔
سوال یہ ہے کہ اگر افغان حکومت سے اتنی ہی ہمدردی تھی تو پھر امریکا اور طالبان کے معاہدے کی حمایت کیوں کی، اگر افغانستان کی خودمختاری اور افغان عوام سے اتنی ہمدردی تھی تو پھر نائن الیون کے بعد امریکا کی قیادت میں نیٹو کے افغانستان پر حملے پر شادیانے کیوں بجائے جس کے نتیجے میں لاکھوں افغانوں کا خون بہا۔کچھ ایسی ہی کنفیوژن اور منافقانہ سوچ اور خواہش پاکستان کے ایک لبرل طبقے کی بھی ہے۔
دنیا مانتی ہے کہ طالبان کا غلبہ افغانستان میں روزبروز بڑھتا جا رہا ہے۔ امریکا ذلت آمیز شکست کے بعد افغانستان سے دم دبا کر ایسے بھاگا کہ دنیا حیران و پریشان ہے۔ پہلے کرزئی اور اب اشرف غنی حکومت تو امریکا کے سہارے پر چلتی رہیں۔ اب وہ امریکا کو شکست دینے والے طالبان کا مقابلہ کیسے کر سکتی ہیں؟ پاکستان کے خلاف بھارت کی ہر سازش کے لیے اپنی سرزمین کو استعمال کرنے والی کٹھ پتلیوں کے تحفظ کے لیے پاکستان سے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ افغان طالبان کو ملک دشمنوں کے مفاد کی خاطر پاکستان کی فوج اور انٹیلی جنس ناکام بنائے۔ یعنی ایک طرف پاکستان افغان طالبان کو اپنا دشمن بنا لے اور دوسری طرف افغانستان میں ایسی حکومت کا ساتھ دے جو بھارت کے اشاروں پر ناچتی ہے، جس کی پاک دشمنی سب پر عیاں ہے، جس کے ذمہ دار پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
سب مانتے ہیں کہ افغانستان دنیا کی مختلف طاقتوں کی سیاست کا مرکز رہا اور ہے بھی۔ امریکا ہو، روس، ایران ہو، چین یا بھارت سب اپنے اپنے مفادات کے لیے افغانستان میں اپنا اپنا کھیل کھیل رہے ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ افغانستان کو امریکا اور بھارت نے خاص طور پر پاکستان کے خلاف استعمال کیا اور اب بھی پاکستان کے خلاف وہاں مختلف قسم کے کھیل کھیلے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں پاکستان میں موجود ہمارے لبرلز کا ایک طبقہ حکومت پاکستان اور پاک فوج کو کہتا ہے کہ افغانستان میں ہمیں کسی معاملہ میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
افغان طالبان کے تو وہ خلاف ہیں اور اُن کی کامیابی سے سخت پریشان بھی بلکہ اس بات پر بھی خفا ہیں کہ پاکستانی چینلز افغان طالبان کا کیوں انٹرویو چلاتے ہیں ۔ اُن کی بھی اے این پی کی طرح خواہش ہے کہ پاکستان افغان طالبان کو کچلنے کے لیے افغان حکومت کی مدد کرے لیکن وہ پاکستان کو یا پاکستان کی سیکورٹی ایجنسیوں کو اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتے کہ وہ افغانستان میں امریکی و بھارتی پاکستان مخالف سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے کوئی بھی تدبیر کریں۔ یعنی ہم افغانستان کے معاملہ پر بیوقوفی کی حد تک سختی سے غیر جابندار رہیں اور دوسروں کے لیے افغانستان کو پاک دشمنی کی سازشوں کا میدان بنا دیکھتے رہیں اور اُس کا نشانہ بنتے رہیں۔
دنیا نےگزشتہ دو دہائیوں کے دوران کوشش کر لی کہ افغان طالبان کو نیست و نابود کر دیا جائے لیکن وہاں جو حقیقت میں ہوا وہ اس کے برعکس رہا۔ ایک ایسے وقت میں جب طالبان ایک کے بعد ایک علاقہ کو فتح کر رہے ہیں پاکستان اشرف غنی ، اے این پی وغیرہ اور پاکستانی لبرلز کے ایک طبقہ کو خوش کرنے کے لیے افغان طالبان کو اپنا شمن بنا لے، یہ کہاں کی دانش مندی ہے؟ ہاں پاکستان کو یہ ضرور کوشش کرنی چاہیے کہ افغان مسئلے کا کوئی پرامن حل نکل آئے تاکہ نہ تو وہاں خون خرابہ ہو اور نہ ہی افغانستان کو ہمارے دشمن ہمارے خلاف استعمال کر سکیں۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔