Time 26 جولائی ، 2021
بلاگ

کوئی دوسری نور مقدم ظلم کا شکار نہ ہو

اسلام آباد میں ایک نوجوان خاتون نور مقدم کے اُس کے دوست ظاہر جعفر کے ہاتھوں بہیمانہ قتل نے ہر سننے والے کے رونگٹے کھڑے کر دیے۔ ظلم اور سفاکیت کا یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کے مجرم کو اگر عبرتناک سزا نہ دی گئی اور اُسے معاشرہ کے لئے مثال نہ بنایا گیا تو پھر آئندہ ایسے جرائم کی روک تھام ممکن نہ ہو گی۔

 مقتولہ کا ظاہر جعفر سے کیا تعلق تھا ؟ مقتولہ کے ماضی پر بحث کسی طور پر بھی اس جرم کی نوعیت کو کم نہیں کرتی، اس لئے ظالم جس نے مقتولہ کو قتل کرنے کے لئے اُس پر چھریوں کے وار کئے اور اس حد تک درندگی پر اُتر آیا کہ اُس کا سر تن سے جدا کر دیا، سرعام موت کی سزا دیے جانے کا مستحق ہے۔ 

ہاں اس واقعہ میں معاشرہ کے لئے ایک سبق ضرور ہے جس پر ہمیں ضرور غورکرنا چاہئے تاکہ نہ ایسے سفاک قاتل پیدا ہوں اور نہ ہی کسی دوسری بیٹی بہن کے ساتھ وہ ظلم ہو جس کا سامنا نور مقدم کو کرنا پڑا۔ 

ایک ذمہ داری ریاست کی اور ایک ذمہ داری معاشرہ کی ہے۔والدین اور نوجوان نسل کے لئے بھی اس واقعہ میں سبق ہے جس سے سب کو سیکھنا چاہئے۔ اس واقعہ کو سامنے رکھ کر حال ہی میں تنازعہ کا سبب بننے والے گھریلو تشدد کی روک تھام کے لئے بنائے جانے والے قانون (Domestic Violence Bill) کا گہرائی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

ڈان نیوز سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی مبشر زیدی نے اس واقعہ پر اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ میں تمام والدین سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں (چاہے وہ بیٹا ہو یا بیٹی) کو کسی دوسرے کے گھر رات بسر کرنے کی اجازت نہ دیں کیوں کہ بہت سے ظالم گھر سے باہر موجود ہیں۔ زیدی صاحب ایک سیکولر اور لبرل سوچ کے مالک ہیں لیکن اس کے باوجود لبرلز کے ہی ایک طبقہ نے غلط طور پر اُن کی بات کو توڑ مروڑ کر پیش کر کے یہ کہنا شروع کر دیا کہ زیدی صاحب Victim Blaming (مظلوم کو ہی ذمہ دار ٹھہرانا)کر رہے ہیں حالاں کہ اُنہوں نے جو بات کی اُس کا مقصد یہ تھا کہ جو ظلم ایک بیٹی کے ساتھ ہوا وہ کسی دوسری بیٹی کے ساتھ نہ ہو۔

 اس واقعہ سے ایک تو بچوں، نوجوانوں کو سبق حاصل کرنا چاہئے تو دوسری طرف بحیثیت والدین یہ ماں باپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ چاہے اُن کا بیٹا ہو یا بیٹی اُس کی نگرانی کریں، دیکھیں کہ اُس کے دوست احباب کیسے ہیں۔ جو ماحول اس وقت ہے اور جس قسم کے جانور جگہ جگہ موجود ہیں، اس تناظر میں ماں باپ ، بڑے بھائی بہن کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بیٹے بیٹی کی جائز روک ٹوک کریں اور فیصلے اُن کی مرضی اور منشاء پر مت چھوڑیں۔

 دوستیاں (لڑکوں کی لڑکوں سے لڑکیوں کی لڑکیوں سے) کرنی ہیں تو ضرور کریں لیکن اپنی معاشرتی اور دینی اقدار کو مت بھولیں۔ بے شک بچے جوان ہو جائیں مگراُن پر نظر ضروررکھیں، اُنہیں دیر دیر تک باہر رہنے کی آزادی مت دیں، بیٹا کہیں جا رہا ہے تو ماں باپ کو معلوم ہونا چاہئے، بیٹی کہیں جائے تو والدین کی اجازت سے، دوستوں کے گھر رات بسر کرنے کی کوئی ٹھوس وجہ ہو تو ٹھیک ورنہ اس کی نہ اجازت ہونی چاہئے نہ بچوں کو ایسی عادت ڈالی جائے کہ جہاں چاہے رات بسر کر لیں یا جس کو چاہے گھر بلا لیں۔ 

ہمارا دین اور ہماری معاشرتی اقدار لڑکے لڑکیوں کے درمیان دوستی اور اُن کے ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کی بالکل اجازت نہیں دیتیں اور یہ وہ اہم ویلیو سسٹم ہے جس کا ہمیں بحیثیت معاشرہ، بحیثیت والدین اور بحیثیت بیٹا بیٹی ہر حال میں دفاع کرنا ہے ورنہ سب کچھ بگڑ جائے گا اور معاشرہ تباہ و برباد ہو جائے گا۔ 

یہی ویلیو سسٹم ہمیں مغرب سے نمایاں کرتا ہے لیکن افسوس ایک طبقہ ایسا ہے جس کی پوری کوشش ہے کہ یہاں بوائے فرینڈ گرل فرینڈ کے رواج کو عام کیا جائے، شرم و حیا کو تار تار کیا جائے اور خاندانی نظام کو تباہ و برباد کر دیا جائے۔

جب ہم Domestic Violence Billکو دیکھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ اگر کوئی بیٹا یا بیٹی کہیں جانے آنے کے مسئلہ پر اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کے متعلق کوئی فیصلہ کرتا یا کرتی ہے تو والدین کو حق حاصل نہیں کہ روک ٹوک کریں ، اُن کی نگرانی کریں کہ کہیں اُن کی غلط کمپنی تو نہیں، کیوں کہ روک ٹوک اور نگرانی کو اگر بیٹے یا بیٹی نے تشدد کے زمرے میں لے لیا اور یہ کہہ دیا کہ اُن کی آزادی کو سلب کیا جا رہا ہے، اُس کے والدین اُس کا پیچھا (Stalking) کر رہے ہیں، اُنہیں ہراساں کیا جا رہا ہے، اُن کی بے عزتی کی جا رہی ہے، اُنہیں گھر سے نکلنے سے روکا جا رہا ہے تو پھر اس بل کے تحت والدین مجرم بن جائیں گے اور یہی اس بل کا سب سے خطرناک پہلو ہےجو ہمارے خاندانی نظام کی تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔ 

گھریلو تشدد کو ضرور روکیں اور اس کے لئے تشدد کرنے والے کو سزا بھی دیں لیکن تشدد کی تعریف ایسی مت کریں کہ والدین بچوں کی تربیت اور اُن کو ایک اچھا انسان اور بہتر مسلمان بنانے کے لئے جو روک ٹوک اور پابندیاں عائد کریں اُن کو ہی تشدد کے زمرے میںشامل کر دیا جائے۔ قانون ایسا بنائیں تربیت ایسی کریں کہ نہ کوئی ظاہر جعفر پیدا ہو نہ کوئی دوسری نور مقدم ظلم کا شکار ہو۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔