پاکستان
Time 27 جولائی ، 2021

8 سالہ بیٹی کا ریپ کرنے والے باپ کو عمر قید کی سزا سنادی گئی

کراچی: سیشن کورٹ نے 8 سالہ بچی کو اپنی باپ کی جانب سے کئی سال قبل زیادتی کا نشانہ بنانے کا جرم ثابت ہونے پر 14 سال قید کی سزا سنادی ہے۔ فوٹو: فائل
کراچی: سیشن کورٹ نے 8 سالہ بچی کو اپنی باپ کی جانب سے کئی سال قبل زیادتی کا نشانہ بنانے کا جرم ثابت ہونے پر 14 سال قید کی سزا سنادی ہے۔ فوٹو: فائل

حال ہی  میں کراچی کی سیشن کورٹ نے چند برس قبل اپنی 8 سالہ بیٹی کا ریپ کرنے والے باپ کو جرم ثابت ہونے پر  14 سال قید کی سزا  سنائی۔

Cruel Numbers 2020 کے مطابق ملک میں یومیہ 8 بچے جنسی استحصال کا شکار ہوتے ہیں جبکہ یہ فعل انجام دینے والے ملزمان میں سے صرف تین فیصد کو ہی سزا ہوتی ہے۔  

بدترین واقعہ کیسے پیش آیا؟

7 مارچ 2009 بروز جمعرات، ذکیہ (فرضی نام)، جو کہ گھریلو ملازمہ ہے، وہ کام پر تھی اور اس کے تینوں بچے شام میں اسکول سے واپس آئے تو بچوں کے والد شاہد نے دونوں بیٹوں کو باہر کھیلنے کیلئے بھیج دیا پھر دروازہ لاک کرکے 8 سالہ بچی گلشن (فرضی نام) کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔

ملزم کی اہلیہ گھر واپس آئی تو اس نے گلشن کو واش روم میں روتے دیکھا، بچی نے اپنی ٹانگوں کے درد کے بارے میں بتایا اور مزید پوچھنے پر بچی نے سارا واقعہ اپنی ماں کو بیان کردیا۔

واقعہ سننے کے بعد ذکیہ اپنے شوہر سے جھگڑنے لگی لیکن ملزم اس الزام سے انکار کرتا رہا، اس کے ذکیہ فوری اپنی بیٹی گلشن کو جناح اسپتال لے گئی۔

تحقیقات

میڈیکل رپورٹ کی روشنی میں ڈاکٹر نے ذکیہ کو آگاہ کیا کہ بچی کے ساتھ نہ صرف بد فعلی کی گئی ہے بلکہ اس کا مقعد کی جگہ سے بھی ریپ کیا گیا۔ اس کے بعد ذکیہ نے پولیس سے رابطہ کیا اور ملزم شاہد کے خلاف ایف آئی آر درج ہونے میں تقریباً ایک ہفتے کا وقت بھی لگا۔

تفتیشی افسر نے بچی اور ملزم کا ڈی اے این لینے کے علاوہ  ان دونوں کے کپڑے بھی ضبط کرکے تحقیقات کا آغاز کیا۔

ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ آتے ہی پولیس نے ملزم شاہد پر جنسی زیادتی اور غیر فطری جرم کے ارتکاب کے الزامات پر فرد جرم عائد کی لیکن ملزم نے صحت جرم سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس کی بیوی نے اس پر جھوٹا الزام عائد کیا ہے کیوں کہ اس نے اسے گھر میں کسی دوسرے مرد کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تھا۔

کورٹ میں شاہد کا کہنا تھا کہ ذکیہ نے اپنی بد اعمالی چھپانے کیلئے اس پر غلط الزامات عائد کیے تاکہ وہ خود کو بچا سکے یعنی شاہد نے تمام عائد الزامات مسترد کردیے اور یوں ٹرائل کا آغاز ہوا۔

ٹرائل

آسیہ منیر 18 سال سے وکالت کے شعبے سے وابستہ ہیں اور ان دنوں وار اگینسٹ ریپ (وار) نامی این جی او کے ساتھ کام کررہی ہیں۔ انہوں نے اس کیس میں  ذکیہ اور گلشن کی پیروی کی۔

اخبار ’دی نیوز‘ سے انٹرویو کے دوران گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ’ پہلی بات تو یہ ہے کہ  ہمارے معاشرے ججز سمیت کوئی بھی زنائے محرم کو ماننے کیلئے تیار نہیں ہوتا، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کہانی گڑھی گئی ہے،  ایسے معاندانہ اور پریشان کن ماحول میں خود کا کیس صحیح ثابت کرنا سب سے مشکل کام ہے جبکہ کمرہ عدالت میں شرمناک سوالات کے دوران کھڑا رہنا بھی سب سے بدترین وقت ہوتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے کورٹ سے  بچی کا بیان ریکارڈ کرنے کے لیے ان کیمرہ سماعت کی درخواست کی کیونکہ گلشن اور ذکیہ پہلے ہی کمرہ عدالت میں شرم کے مارے ایک کونے میں چھپ کر بیٹھی ہوتی تھیں جبکہ عدالتی عملے اور وکیل دفاع کا رویہ بھی ان کے ساتھ کچھ ڈھیک نہیں تھا۔

بیان

متاثرہ بچی گلشن نے جج کے چیمبر میں اپنا بیان دیا جہاں درخواست گزار یعنی ذکیہ سمیت جج، دونوں وکیل اور گلشن کے علاوہ کسی شخص کو  شامل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔

گلشن کے بیان ریکارڈ کرانے کے بعد وکیل دفاع نے جرح شروع کی اور سوالات کی بوچھاڑ کردی۔ وکیل نے بچی سے کہا کہ وہ اپنی والدہ کے کہنے پر جھوٹ بول رہی ہے  لیکن گلشن نے کہا کہ اسے والدہ نے جھوٹ بولنا نہیں سکھایا۔

وکیل صفائی نے مزید سوال کرتے ہوئے کہا کہ تمہاری والدہ کے کسی دوسرے شخص کے ساتھ تعلقات ہیں جس پر مدعی کی وکیل آسیہ نے اس سوال پر اعتراض کیا لیکن گلشن کا سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ ’میری والدہ ہمارے لیے دوسروں کے واش روم صاف کرتی ہیں، وہ جھوٹ بول رہی ہے نہ میں جھوٹ بول رہی ہوں۔‘

دفاعی دلائل

وکیل دفاع نے جج کے سامنے سوالات اور دلائل اٹھائے کہ زیادتی کے اس کیس میں متاثرہ بچی پر تشد یا چوٹ کا کوئی نشان کیوں نہیں ہے؟ ایف آئی آر درج کروانے کا خیال ایک ہفتے کے بعدکیوں آیا؟ پولیس کو گلشن کے کپڑے واقعہ کے 19 دن بعد کیوں حوالے کیے گئے؟ جناح اسپتال جانے سے قبل درخواست گزار نے متعلقہ پولیس اسٹیشن سے خط کیوں نہیں لیا؟ اور وکیل نے آخر کورٹ سے درخواست کی کہ شکایت گزار کا کسی دوسرے شخص کے ساتھ ناجائز تعلق ہے، کورٹ کو چاہیے اس کو بھی طلب کیا جائے۔

17 جولائی کو جاری کردہ فیصلے میں ایسٹ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے جج جاوید احمد پھلپوتو  نے کہا کہ ملزم اپنی بیوی پر ناجائز تعلقات کے الزام کو ثابت کرنے کے لیے خود اپنے رشتہ داروں کو بھی پیش نہیں کرسکا۔ جج نے قرار دیا کہ ملزم نے یہ الزام محض درخواست گزار کو بدنام کرنے اور اس کیس سے بچ نکلنے کے ساتھ لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے لگایا۔

جسٹس جاوید احمد نے ریمارکس دیے کہ تشدد کی عدم موجودگی اس بات کا ثبوت نہیں کہ جرم  نہیں ہوا، جج نے اس معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے  پی ایل ڈی 1948 سپریم کورٹ 218 ،  غلام سرور بمقابلہ اسٹیٹ کا حوالہ دیا۔

جج نے کہا کہ تہنائی میں لیا گیا بیان کافی ہوتا ہے اگر وہ فرد جرم سے مماثلت رکھتا ہو جیسا کہ پی ایل ڈی 1991 سپریم کورٹ412 نسرین بمقابلہ فیاض خان کیس میں ہو ا تھا۔ 

توجہ سے محروم جنسی زیادتیاں

وار  پروگرام آفیسر شیراز  احمد کے مطابق کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق صوبہ سندھ میں رواں برس کی پہلی ششماہی میں 38 فیصد زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کی این جی او نے ذکیہ اور گلشن کو  یہ کیس جیتنے میں مدد فراہم کی۔ این جی او آفیسر کا کہنا تھا کہ گذشتہ ماہ سے اب تک کے دورانیے میں سندھ پولیس نے 193 زیادتی اور 45 اجتماعی زیادتی کے کیسز درج کیے ہیں جبکہ اصل تعداد  اس سے کہیں زیادہ ہے۔

این جی او کے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ایسے کیسز کم رپورٹ ہونے کی وجہ معاشرتی مسائل بشمول متاثرہ افراد کو اپنے حقوق سے آگاہی نہ ہونا  اور اصل طریقہ کار سے واقف نہ ہونا،بدنامی کا خوف، انصاف کے نظام پر عدم اعتماد ہے۔

ایک مشکل راستہ

آسیہ کو  سمجھتی ہیں کہ زیادتی کے کیس میں انصاف حاصل کرنے کا سفر بہت درد ناک ہوتا ہے، اگر کوئی متاثرہ خاتون رپورٹ کروانےمتعلقہ  تھانے جاتی ہیں تو زیادہ تر وہاں مرد ہوتے ہیں جو نہایت بے ہودہ سوالات کرتے ہیں جس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ وہ حقائق جاننا چاہتے ہیں بلکہ وہ عورت کی بات کا بھروسہ نہیں کرتے کیوں کہ یہ ایک پدر شاہی معاشرہ ہے جہان صنفی امتیاز برتا جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس سے آگے کے مراحل تو  مزید مشکل ہوتے ہیں۔

ذکیہ کی وکیل کا مزید کہنا تھا کہ کراچی میں قانونی میڈیکل چیک اپ کے لیے تین مراکز ہیں جن میں جناح اسپتال، سول اسپتال اور عباسی شہید اسپتال شامل ہیں لیکن وہاں مشکل سے کوئی خواتین ڈاکٹر شفٹ میں موجود ہوتی ہیں جبکہ ایسی جگہوں پر اب بھی زیادتی کی کو جانچنے کے لیے ایک یا دو انگلیوں کا متنازع طریقہ کار استعمال کیا جاتا ہے۔

وارنامی این جی او نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ پولیس سمیت، پراسیکیوٹر،  ججز، قانونی میڈیکو چیک اپ کے افسران، میڈیا، تعلیمی اداروں کمیونٹی اراکین کو نئے کورسز کے ذریعے معاشرے کے کمزور طبقات کے مسائل کی نشاندہی، ان کی حفاظت اور  مؤثر  طریقے سے انہیں جواب دینے کی تربیت دی جائے۔

وار نے جلد انصاف کو یقینی بنانے کیلئے متعلقہ حکام سے فوری ٹرائل کا مطالبہ کیا ہے تاکہ جنسی ہراسگی کے کیس کا فیصلہ 6 ماہ کے دوران ہی کیا جا سکے۔

مزید خبریں :