بلاگ
Time 31 جولائی ، 2021

افغانستان۔ ماضی کا عذاب

یہ کہانی 2014 کے اوائل سے شروع ہوتی ہے جب اشرف غنی افغانستان میں صدارتی امیدوار بنے۔ اشرف غنی کے ساتھ پاکستان کے حقیقی پالیسی سازوں کی ڈیل ہوئی، جس کے تحت انتخابات کے دوران پاکستان نے اشرف غنی کو سپورٹ کرنا تھا اور جواب میں اشرف غنی نے صدر بننے کے بعد افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے خدشات کو رفع کرنا تھا۔ چنانچہ پاکستان نے اشرف غنی کی مالی مدد بھی کی اور افغانستان کے اندر اپنے زیراثرلوگوں کو بھی ان کے حق میں استعمال کیا۔ انتخابی مہم کے دوران اشرف غنی کہتے رہے کہ اصل مسئلہ طالبان نہیں بلکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات ہیں۔

چنانچہ صدر بننے کے بعد اشرف غنی پہلے چین اور سعودی عرب گئے اور پھر پاکستان کے دورے پر آئے۔ ان کے دورہ پاکستان سے قبل آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور دیگر پاکستانی حکام نے کابل کے دورے کرکے ان کے ساتھ بیشتر معاملات طے کر لئے تھے۔ چنانچہ اشرف غنی ایک نئے سفر کے آغاز کے ارادے کے ساتھ پاکستان آئے۔ وہ پہلے افغان صدر تھے جنہوں نے جی ایچ کیو کا بھی دورہ کیا اور یادگارِ شہدا پر پھول چڑھائے۔ 

دورے میں اشرف غنی نے حامد کرزئی کے دور میں انڈیا کے ساتھ ہونے والے اسٹرٹیجک پارٹنرشپ کے معاہدے پر نظرثانی اور پاکستان کے ساتھ اسٹرٹیجک پارٹنر شپ کا معاہدہ کرنے کا عندیہ بھی دیا۔ اسی طرح انہوں نے اپنے فوجیوں کو تربیت کے لئے پاکستان بھیجنے پر بھی رضامندی ظاہر کردی۔ 

علاوہ ازیں انہوں نے افغان سرزمین کاانڈیا کی جانب سے پاکستان کے خلاف استعمال روکنے کے لئے ہر ممکن قدم اٹھانے کا بھی وعدہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان کے ذریعے طالبان سے مذاکرات چاہتے ہیں ، وہ پاکستان سے توقع کررہے تھے کہ وہ پورے خلوص کے ساتھ جلدازجلد طالبان کو ان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بٹھائے گا اور ڈیل کرانے میں بھرپور کردار ادا کرے گا۔ پاکستانی قیادت نے بھی وعدہ کیا کہ وہ دونوں فریقوں کی مفاہمت کرانے کی سنجیدہ اور مخلصانہ کوشش کرے گا۔ 

اس دورے اور اس کے دوران پاکستان کے ساتھ کئے گئے وعدوں کی وجہ سے اشرف غنی کو افغانستان میں شدید تنقید کا نشانہ بننا پڑا جبکہ انڈیا بھی ان سے ناراض ہوگیا۔ اشرف غنی افغانستان واپس جاکر بتاتے رہے کہ پاکستان نے ان کے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ وہ طالبان کو مفاہمت پر آمادہ کرے گا اور اگر ایسا نہ ہوسکا تو پھر ان کے خلاف کارروائی کرے گا۔ اشرف غنی واپس جاکر پاکستان کی طرف سے اقدامات کا انتظار کرنے لگے یہاں میاں نواز شریف عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنوں کا مقابلہ کرکے اپنی حکومت بچانے میں مصروف ہو گئے۔ 

اس دوران میں اپنے کالموں اور ٹی وی پروگراموں کے ذریعے وقتاً فوقتاً یاد دلاتا رہا کہ اللہ کے بندو! اشرف غنی کے ساتھ کئے گئے وعدوں کی طرف بھی توجہ دو کہ حامد کرزئی کے برعکس اشرف غنی غیرسیاسی قسم کے ضدی انسان ہیں اور اگر ایک بار ناراض گئے تو پھر انہیں راہ راست پر لانا مشکل ہوگا۔یہ بھی عرض کرتا رہا کہ اشرف غنی ذہنی طور پر امریکنائزڈ افغان قوم پرست ہیں جو شعوری طور پر پاکستان مخالف ہیں اور جو کچھ انہوں نے پاکستان کو آفرکیا وہ پاکستان کی محبت میں نہیں بلکہ جواب میں کچھ حاصل کرنے کے لئے کیا ہے۔ 

اس دوران اشرف غنی وقتافوقتا پاکستان کی حکومت اور عسکری قیادت کو وعدے یاد دلاتے رہے اور ایک مرتبہ ایک سابق سفارتکار دوست کے ہاتھوں جنرل راحیل شریف کے نام ایک خط بھی بھیجا لیکن افسوس کہ یہاں دھرنے ہی دھرنے چلتے رہے۔ چنانچہ اشرف غنی بھڑک اٹھے۔ وہ یہ سمجھنے لگے کہ پاکستان نے ان کے ساتھ دھوکہ کیاچنانچہ وہ ایک بار پھر پاکستان کے بارے میں ماضی کے اشرف غنی بن گئے۔ چنانچہ تب سے لے کر اب تک وہ پاکستان پر شدید برہم ہیں اور پاکستان کے ہر قدم کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

دوسری طرف امریکہ اور طالبان کی ڈیل کے بعد پاکستان کا کردار یکسر تبدیل ہوگیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ روس ہو یا ایران اور چین ہو یا پاکستان، افغانستان کا ہر ایک پڑوسی وہاں نیٹو افواج کی موجودگی پر خوش نہیں تھا اور سب کی خواہش تھی کہ وہ یہاں سے نکلیں چنانچہ یہ سب ملک طالبان کے لئے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ نام تو صرف پاکستان کا لیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایران نے بھی ڈٹ کر جبکہ روس نے کسی حد تک طالبان کی مدد کی، تاہم قطر ڈیل کے بعد ان سب کی اپروچ تبدیل ہوگئی ہے اوریہ افغانستان میں تنہا طالبان کی حکومت یا پھر خانہ جنگی نہیں چاہتے۔ 

حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ آٹھ دس ماہ کے دوران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید اور افغانستان کے لئے خصوصی نمائندے محمد صادق نے طالبان کو سمجھانے اور افغان حکومت کے ساتھ مفاہمت پر آمادہ کرنے کے لئے بھرپور کوششیں کی ہیں اور کررہے ہیں۔ اس وقت افغانستان میں ماضی کی بنیاد پر یہ تاثر عام ہے کہ طالبان کی فتوحات کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے لیکن دوسری طرف مذکورہ افراد دن رات ایک کئے ہوئے ہیں کہ طالبان کو طاقت کے بل پر کابل اور صوبائی ہیڈکوارٹرزپر قبضہ کرنے سے روکیں۔ 

حقیقت یہ ہے کہ طالبان جنگ بندی کا پاکستان کامطالبہ نہیں مان رہے اور اس بات پر بھی ناراض ہیں کہ پاکستان نے ماسکو میں روس، چین اور امریکہ کے ساتھ مل کر اس اعلامیہ پر کیوں دستخط کئے جس میں کہا گیا تھا کہ طالبان کی امارات اسلامی قابلِ قبول نہیں۔ یہ کوششیں تو اپنی جگہ پاکستان نے چین اور ایران جیسے ممالک سے بھی کہہ دیا ہے کہ وہ طالبان کو سیاسی حل پر آمادہ کرنے میں مدد کریں لیکن دوسری طرف ان کوششوں کی قدردانی کی بجائے اشرف غنی اور ان کی حکومت کے حمداللہ محب اور امراللہ صالح جیسے لوگ ہر روز اپنے مخالفانہ بیانات کے ذریعے پاکستان کو طیش دلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ 

چنانچہ پاکستان کی یہ رائے بن رہی ہے کہ اشر ف غنی شعوری طور پر طالبان کے ساتھ مفاہمت نہیں چاہتے۔ دوسری طرف اشرف غنی کو یہ شک ہے کہ پاکستان مفاہمت کی کوششوں کی آڑ میں ان کو اقتدار سے الگ کرنا چاہتا ہے۔ اب اگر یہ صورتحال رہی تو اس کا پاکستان کو تو نقصان ہوگا ہی لیکن پہلے افغانستان اور اشرف غنی کو نقصان ہوگا۔اس لئے دونوں فریقوں کو چاہئے کہ وہ ماضی سے نکلیں اور نئی حقیقتوں کے مدنظر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں، ورنہ دونوں کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔