25 اگست ، 2021
سپریم کورٹ کے جسٹس فائز عیسیٰ کی جانب سے قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو لکھےگئے خط کی تفصیل سامنے آگئی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق ازخود نوٹس کیس کے دائرہ اختیار اور تعین کے لیے قائم بینچ پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔
خط میں کہا گیا ہےکہ اس معزز بینچ کو یہ مقدمہ سننے کا اختیار ہی نہیں،اگر سماعت جاری رکھی تو یہ آئین سے انحراف اور تجاوز ہوگا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہےکہ رجسٹرار سپریم کورٹ سرکاری ملازم ہے اور وہ خود کو ایک منصف اور آئینی ماہر سمجھتا ہے، رجسٹرار نے فوری طور پر نوٹس لیا اور 6 صفحات پر مشتمل نوٹ چیف جسٹس کو بھجوا دیا، اس نوٹ میں شامل کئی صفحات پیپر بک کا حصہ نہیں ۔
ان کا کہنا ہے کہ آئین کے تحت کوئی بینچ کسی دوسرے بینچ کی مانیٹرنگ نہیں کر سکتا ، 5 رکنی لارجر بینچ آئین کے تحت کون سا اختیارِ سماعت استعمال کر رہا ہے ؟ اگر ایسا کیا جاتا رہا تو افراتفری پیدا ہوگی اور عدالتی نظام زمین بوس ہو جائےگا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مطابق چیف جسٹس کے پاس صرف بینچ تشکیل دینےکا اختیار ہے ، وہ یہ تعین نہیں کر سکتےکہ کون سا کیس کس بینچ میں مقرر ہوگا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط میں یہ بھی لکھا ہےکہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ایک مرتبہ نامعلوم نمبر سے وصول ہونے والے واٹس ایپ پیغام پر ازخودنوٹس لیا جس کے باعث قومی خزانے کو 100 ارب روپےکا نقصان ہوا۔
جسٹس فائز عیسیٰ کا خط میں کہنا ہے کہ پاکستان کا ہر شہری آزادی صحافت کے لیے اسٹیک ہولڈر ہے، اس خط کی کاپی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر بھی اپ لوڈ کی جائے۔