مہنگائی کے سامنے بے بس حکومت

پاکستان تحریک انصاف جن بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی وہ دعوے ہوا ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ 2011 سے لے کر 2018 تک پاکستان تحریک انصاف کے لئے ایک ایسا ماحول ترتیب دیا گیا تھا جس سے یوں لگتا تھا کہ تمام مسائل کے حل کی کنجی عمران خان کے پاس ہے۔

جناب عمران خان نے بھی اپنی تقاریر سے ایسا تاثر دیا تھا جیسے ان کے پاس ایسی ٹیم موجود ہے جو ایک دم ملک کی تقدیر بدل کر رکھ دے گی۔پاکستان کا وہ کون سا شعبہ تھا جس کی اصلاح کے لئے جناب عمران خان نے اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا برملا دعویٰ نہیں کیا تھا۔

دکھوں کے مارے عوام نے بھی عمران خان کو مسیحا سمجھ لیا۔ مہنگائی، کرپشن کے خاتمے،سرکاری اداروں کی اصلاح اور بے روزگاری جیسے سنگین مسائل کے حل کے لئے تحریک انصاف ہی امید کی واحد کرن دکھائی دینے لگی۔ت حریک انصاف کے اسٹیج سے بار بار اس بات کا دعوی کیا جاتا تھا کہ ان کے پاس ماہرین کی ایک ایسی ٹیم موجود ہے جو چٹکی بجاتے ہی ملک کو اس گرداب سے نکال لے گی،لیکن:

اے بسا کہ آرزو خاک شدہ

تین سال کا عرصہ گزرنے کے بعد مہنگائی کسی طرح قابو میں نہیں آ رہی، ایک کروڑ نوکریوں کا دعویٰ کرنے والوں نے لوگ بے روزگار کرنا شروع کر دیے،اداروں میں اصلاحات کا آغاز تو کیا ہونا تھا،وہ بدانتظامی کا گڑھ بن گئے،آج ہر شخص بے بسی کی عملی تصویر بناہوا ہے۔ 

ایسا کیوں نہ ہو ہمارے وزیراعظم سب سے زیادہ بے بس نظر آرہے ہیں۔ان کو ایسے لوگوں نے گھیر لیا ہے جن کی پاکستان میں جڑیں ہی نہیں ہیں۔یوں لگتا ہے کہ ایک مافیا ہے جس نے نظام حکومت پر اپنے پنجے گاڑ دیے ہیں۔باہر کے ممالک سے درآمد کیے گئے لوگ جن کو یہاں کے حالات سے ذرا بھی واقفیت نہیں وہ ٹھنڈے یخ بستہ کمروں میں بیٹھ کر غربت کی ماری اس قوم کی تقدیر کا فیصلہ کرتے ہیںاور عوام کے منتخب نمائندے ان کے فیصلوں کے سامنے ہاتھ باندھ کر سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ نتیجہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔

اسلام آباد کے ایوان اقتدار کی غلام گردشوں میں کچھ افراد کے نام اونچی سرگوشیوں میں لئے جا رہے ہیں جو بادی النظر میں بظاہر کسی غیر ملکی ایجنڈے کے تحت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے مشن پر ہیں۔ہمارے اسٹیٹ بینک کے گورنر جو آئی ایم ایف کے ملازم ہونے کے ناطے مصر میں تعینات تھے وہاں کی معیشت کا بیڑہ غرق کرنے کے بعد پاکستان کی تقدیر سنوارنے چلے آئے اور تدریجاً تباہی کا عمل شروع ہو گیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی طور پر مہنگائی کا طوفان ہے،اس میں بھی کوئی دوسری رائے نہیں کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں،یہ بھی حقیقت ہے کہ بے روزگاری ایک عالمی مسئلہ ہے،یہ بات بھی درست ہے کہ دنیا کے امیر ممالک بھی ان مسائل سے دوچار ہیں،اس بات کو بھی غلط نہیں کہا جا سکتا کہ پوری دنیا میں لوگوں کی قوت خرید کم ہوئی ہے،لیکن جو اندھیر نگری پاکستان میں ہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

عالمی طاقتوں کا ایجنڈا ہے کہ پاکستان میں وہی حالات پیدا ہوں جو مصر اور لبنان میں پیدا ہو چکے ہیں،روپے کی قدر و قیمت میں ہوشربا کمی،ڈالر کی قیمت میں بے پناہ اضافہ،پٹرول کی قیمتوں کے سامنے بے بسی،ذرائع روزگار میں کمی،بجلی اور گیس کی قیمتوں میں یکدم اضافہ،یہ سارے حالات مل کر پاکستان کو ایسی بند گلی میں دھکیل رہے ہیں جن سے نکلنا نا ممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور ہو جائے گا۔ 

مہنگائی کا یہ بوجھ عوام کب تک برداشت کریں گے۔ان مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لئے وزیراعظم کے پاس کوئی ٹیم موجود نہیں۔ ٹیم کے نام پر غیر ملکی شہریت رکھنے والے جو بابو اکٹھے کیے گئے ہیں انہیں پاکستان سے کوئی دلچسپی نہیں۔ جب عوام مہنگائی سے تنگ آکر گھر سے باہر نکلیں گے، تو یہ بابو حضرات اپنا بریف کیس لیں گے اور اپنے وطن چلے جائیں گے۔ 

بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ عالمی طاقتوں کی اصل توجہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر ہے۔ بھارت اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ سے پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرکے ہمارے ایٹمی پروگرام پر سوالیہ نشان ثبت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔جس طرح ایران کے گرد گھیرا تنگ کر کے اسے بے بس کر دیا گیا ہے اسی طرح پاکستان کو اندرونی عدم استحکام کا شکار کر کے یہاں کا نظام حکومت مفلوج کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اس خطرناک ماحول میں پاکستان کی سیاسی قیادت کا کردار افسوسناک حد تک غیر ذمہ دارانہ ہے۔ملکی اداروں پر گفتگو کرتے ہوئے جس طرح غیر سنجیدہ زبان استعمال کی جا رہی ہے وہ کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں۔

وزیراعظم صاحب،خدا کے لئے اپنی انا کے خول سے باہر نکلیے۔تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ بات چیت کیجیے۔ موجودہ مسائل سے نمٹنے کے لئے اکیلی تحریک انصاف کافی نہیں۔ تمام جماعتوں کو ایک پیج پر آنا ہوگا۔ ملک کی سیاسی قیادت ہی پاکستان کو اس گرداب سے نکال سکتی ہے۔ اگر فیصلہ سازی اسی نالائق ٹیم کے مشورے سے ہوتی رہی تو پاکستان کے عوام کیلئے زندگی مشکل سے مشکل تر ہوجائے گی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔