بلاگ
Time 31 اکتوبر ، 2021

مذہبی کارڈ

خندقیں کھودنے سے بھلا جانثاروں کے قافلے رکتے ہیں؟ لبیک یارسول اللّٰہ پہ تو کوئی کافر ہی ہوگا جو لبیک نہیں کہے گا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ایسا نہ کہنے والے مسلکوں کے ماننے والوں کو کیا کہا جائے گا؟ اور کفر قرار دینے کا یہ سلسلہ کہیں رُکنے والا نہیں۔

اور پاکستان میں کوئی دینی جماعت یا مسلک کے ماننے والے انڈونیشیا کی سب سے بڑی اسلامی جماعت ندوۃ العلما کے دو ہزار سے زیادہ جید علما کے اس فتویٰ کی پیروی کرنے کو تیار نہیں جس کے مطابق کفر کے مسلمانوں پر اطلاق کو متروک قرار دیا گیا ہے اور انسانی حقوق کے عالمی اعلان نامے کی توثیق کی گئی ہے۔

مذہب کے نام پر ریاستی تشکیل اور ’قومی تعمیر‘ سے ممکنہ قومی ریاست کی قبر تو پہلے ہی کھودی جاچکی ہے۔ مذہبی کارڈ نے بھی کیا کیا گل کھلائے۔ برصغیر تقسیم ہوا، معاشرے بٹے اور ہرسُو فرقہ وارانہ عصبیتیں ہیں کہ پھیلتی چلی گئیں۔

گمان پڑتا ہے کہ فرقہ وارانہ و نسلیاتی جنگوں کا زمانہ انکیوزیشن (Inquisition) (1478-1834) پھر سے مسلم دنیا ہی نہیں برصغیر میں پلٹ آیا ہے۔ اگر گاندھی جی نے تحریک خلافت کا پرچم تھاما تو مسٹر جناح نے دو قومی مذہبی نظریہ کی بنیاد پر پاکستان کا قیام ممکن بنایا۔

فساد تو اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے شروع ہوا تھا لیکن برصغیر کی تین ملکوں میں تقسیم کے باوجود اقلیتیں ہیں کہ دن بدن غیر محفوظ ہوچلی ہیں۔ اگر پاکستان قرار داد مقاصد سے 1973ءکے آئین تک اسلامی ریاست بننے کی راہ پہ ٹھوکریں کھارہا ہے تو سیکولر ریپبلکن سوشلسٹ انڈیا ہندو راشٹرا بننے کے فرقہ وارانہ فساد کی راہ پہ چل نکلا ہے۔

گو کہ بنگلہ دیش سیکولر آئین کی جانب قدم بڑھانے کو ہے اور مذہبی سیاست پر بندش لگادی گئی ہے، اسلامی احیا پسند بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے ردعمل میں ہندو اقلیت کو نشانہ بنارہے ہیں اور اس کے ردعمل میں تریپورہ سے لے کر گڑگائوں تک ہندو انتہا پسند مسلمانوں پہ حملہ آور ہیں۔ ایسے میں اگر وادی کشمیر کے مسلمان پاکستانی کرکٹ ٹیم کی فتح اور بھارتی ٹیم کی شکست کا جشن منائیں گے تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے۔

جن علمائے کرام نے پاکستان کی مخالفت کی تھی، ان کے ہاتھ تو 1934ء سے ہی قادیان کے مقام پر ختم نبوت کا ایشو آگیا تھا اور پاکستان کے قیام سے انہیں جو ہزیمت اٹھانا پڑی اس سے نجات اسی میں تھی کہ اس بھڑکتے موضوع پہ سیاست کی جائے۔ پہلے اینٹی قادیانی فسادات کو روکنے کے لیے 1953ء میں مارشل لالگانا پڑا اور غالباً جنرل اعظم پہلے اور آخری جرنیل تھے جنہوں نے مذہبی فسادات کو روکنے کی کوشش کی۔ 

پہلی آئین ساز اسمبلی نمائندگی، وفاقیت اور شریعت کے سوالوں پہ بٹی رہ گئی اور ایوب خان نے اگر قومی ریاست کو اس کا سیکولر نام دیا بھی تو 1965ء کی جنگ اور اس کے بعد پھر سے ہندوستان دشمنی میں مذہب کا سہارا لیا گیا۔ 1971ء کی جنگ میں شکست کے بعد بچے کھچے پاکستان کو 1973ء کا آئین ملا بھی تو وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔

 اب اسلام اور جمہوریت کے دو متضاد عناصر میں جنگ آئینی حدود ہی میں نہیں بلکہ آئینی حدود سے بہت دور تک پھیل گئی ہے۔ بھارت میں اگرسیکولر قوتیں سخت ہندتوا کے مقابلے میں نرم ہندتوا کی جانب مراجعت پہ مجبور ہوگئی ہیں تو پاکستان کی تمام روایتی پارلیمانی پارٹیاں بھی نیم اسلامی اور نیم جمہوری بیساکھیوں پر بنیاد پرستی اور مذہبی شدت پسندی کیخلاف کب تک ٹھہر سکتی ہیں۔ 

توہین مذہب کی شقیں تو انیسویں صدی سے قانون کی کتابوں میں موجود رہیں، لیکن ضیا الحق کی ترامیم کے بعد توہین کے ناقابل یقین واقعات اور مقدمات میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ان معاملات پر گو کہ بریلوی علما کا موقف بھی ویسا ہی رہا جیسا کہ دیو بندی علما حضرات کا تھا، لیکن ختم نبوت کے موضوع پہ میدان دیو بندی علما کے ہاتھ رہا اور افغان جہاد نے انہیں ایک طاقتور قوت بنادیا۔ پھر شیعہ مسلک کے مسلمانوں کی باری آئی اور تکفیر کا سلسلہ تمام مسلکوں تک پھیلتا چلا گیا۔ 

جمعیت علمائے اسلام کو توڑ کر سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی اور جیش محمد جیسی تنظیمیں پھیلائی گئیں اور شیعہ حضرات فقہ جعفریہ کے نفاذ لیے متحرک ہوگئے۔ سب کے سب امریکہ کے اشارے پر مائل جہاد ہوئے اور بات طالبان سے آگے بڑھتے بڑھتے القاعدہ اور داعش تک جا پہنچی جس کی خلافت کا خونخوار منظر ہم شام و عراق کے متصل علاقوں میں دیکھ چکے ہیں۔ عالمی استعمار کی نازل کی گئی جنگوں نے بھی عام مسلمانوں کو ان کے چنگل میں پھنسنے پہ مجبور کیا۔

ایسے میں ہمارے بہت ہی معتدل روایت پسند، صوفی منش اہل سنت کے پاس کوئی دل گداز نعرہ تھا تو وہ شان رسالت جس کا دم بھرنے والوں کی برصغیر میں بھاری اکثریت ہے۔ جب مغرب میں آزادی اظہار کے جلو میں حضورﷺ کی شان میں گستاخیوں کی اشتعال انگیزیاں بڑھیں تو اس کا ردعمل تو تمام مسلم دنیا میں ہونا ہی تھا۔ خادم حسین رضوی مرحوم کی زبان پہ تو بہت اعتراض کیا جاتا ہے ، لیکن یہ صوفیا کی زباں تو نہیں جو لوگوں کی زبان میں انسانی بھائی چارے کا سبق دیتے تھے۔

اب ہمارے مفتی منیب ہوں یا پروفیسر طاہر القادری کا خطبہ کوئی سمجھے تو کیسے۔ ابلاغ خادم حسین رضوی ہی کا چلا اور ایسا چلا کہ وہ راتوں رات پنجاب کی تیسری بڑی جماعت بن گئے۔ جب مرحوم خادم حسین رضوی نواز شریف کی حکومت کے وقت فیض آباد میں دھرنا آزما ہوئے تھے تو ہم نے دیکھا تھا کہ ریاستی ادارے ان کے سامنے کیسے دو زانو ہوگئے تھے اور تحریک انصاف والوں نے خوب داد دی تھی۔ 

اب جب سعد رضوی نے وہی بیڑہ اُٹھایا ہے تو حکومت اور اداروں کے ہاتھ پائوںپھول گئے ہیں۔ بھٹو صاحب اور نواز شریف کی طرح عمران خان نے بھی اہل سنت کی پچ پر مذہبی کارڈ کھیلنے کی کوشش کی، لیکن وہ ان کے گلے پڑتی نظر آرہی ہے۔ ریاست کی تعمیر اور رُخ ہی اسلامی ریاست کی جانب ہے قومی ریاست کی طرف نہیں۔ قومی ریاست کا جدید تصور تیس سال تک یورپ میں فرقہ وارانہ اور نسلی جنگوں سے عاجز آکر 1648میں ویسٹ فیلیا کے امن (Peace of Westphelia) معاہدے کے بعد وجود میں آیا جو ایک جغرافیائی ، قومی یا دنیاوی ریاست (Terrestrial) کے مقتدر اعلیٰ کی بات کرتا ہے۔

 مذہبی ریاست اور غیر علاقائی امہ کے روحانی تصور (Celestial) کی نہیں۔ اب بیچارے پاکستانی سادہ لوح مسلمان کریں بھی تو کیا جنہیں دین پیارا ہے دنیا داری نہیں۔ حکیم الامت علامہ اقبال نے ہی کہا تھا 

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔