بلاگ
Time 06 نومبر ، 2021

کیا ہم ریوڑ ہیں؟

ہمارے بائیس کروڑ عوام میں سے چند لاکھ ضرور امیر ہوں گے باقی ہم کروڑوں تو غریب ہیں جن میں اگر کچھ امیر تھے بھی تو حکومت نے انہیں کھینچ کر غریبوں میں پھینک دیا ہے اب ہماری ایماندار حکومت نے ان غربا کے لئے ایک ارب بیس کروڑ روپے کا ریلیف پیکیج جاری فرمایا ہے اور جو امیر سیٹھ لوگ ہیں انہیں بھی تلقینِ شاہی ہے کہ اپنے منافع بخش کاروبار سے کچھ خیرات نکال کر غربا کو اچھی اور گرم چائے پلا دیا کریں ہو سکے تو مہینے میں ایک دو بار انہیں کھانابھی کھلا دیا کریں، کھانا کھا کر یہ الحمد للہ کہتے، دانتوں میں خلال کرتے کم از کم حکومت کو بددعائیں دیں گے نہ زبان طعن دراز کریں گے، حکومت نےبھی تو اس مقصد کے تحت لنگر خانوں کا جال بچھا رکھا ہے۔

آپ دیکھیں گے کہ اس ریلیف پیکیج کی برکت سے آئندہ چھ ماہ میں کس تیزی سے ہماری ڈوبی ہوئی معیشت اوپر اٹھتی ہے۔ آٹا، دال اور گھی پر اکٹھی تیس فیصد سبسڈی سے عوام کی آنکھیں ہی نہیںکھُلیں گی باچھیں بھی کھلِ جائیں گی۔ یقیناً اس خطیر رقم سے محض 13کروڑ نہیں 23کروڑ عوام پورے دو سال تک مستفید ہوتے رہیں گے، چالیس لاکھ خاندانوں کے لئے ہم جلد بلاسود قرضوں کا پروگرام بھی دینے جا رہے ہیں ۔

میرے پاکستانیو! آج اگر ہمیں پٹرول مزید آٹھ روپے مہنگا کرناپڑا ہے یا چینی ایک سو پچاس روپے کلو تک پہنچ گئی ہے تو اس مہنگائی کی وجہ ہم نہیں سابقہ حکومتیں تھیں، اگر آپ تحریک انصاف کی نظر سے دیکھو تو یہ مہنگائی کوئی زیادہ نہیں، اپنے ہمسایہ دیگر ممالک سے موازنہ کرو تو یہ مہنگائی کچھ بھی نہیں، مہنگائی تو ہندوستان کیا امریکا میں بھی بہت بڑھی ہے، پوری دنیا میں بڑھی ہے لیکن جتنی ہم نے کی ہے وہ کچھ بھی نہیں ہے، اس لئے کہ ہمیں عوامی غربت اور دکھوں کا احساس ہے۔ اس تھوڑی سی مہنگائی سے بھی آپ نے گھبرانا شروع کردیا ہے۔

اپوزیشن آپ کو خواہ مخواہ ڈراتی رہتی ہے، اپوزیشن کا تو کام ہی یہ ہے لیکن ہمارے آزاد میڈیا کو اس سلسلے میں تعاون کرنا چاہیے، آپ لوگ اگر مائیک لے کر عوام کے پاس جائیں گے تو لازمی بات ہے وہ مہنگائی کا رونا دونا شروع کردیں گے، حب الوطنی کاتقاضا ہے کہ آپ عوام کے پاس جائیں ہی مت، حکومت وقت کے ساتھ تعاون کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے خود ہی لکھ دیا کریں کہ سب اچھا ہے، اگر ہماری ذمہ دار صحافت اس قومی مفاد اور ذمہ داری کا احساس کرے تو پاکستان میں کہیں بھی کسی کو کوئی برائی یا خامی نظر نہ آئے۔

ایمانداری کے ساتھ آگے بڑھنا اور ترقی کرنا جان جوکھوں کا کام ہوتا ہے آپ تو تھوڑی سی مہنگائی سے گھبرا گئے ہیں جبکہ میں آپ کو بتاتا ہوں آگے سردیاں آنے والی ہیں ان سردیوں میں ہم عوامی ڈیمانڈ کے مطابق گیس مہیا کرنے سے یقیناً قاصر رہ جائیں گے لہٰذا مجبوراً ہمیں گیس کی قیمتیں بھی تیل کی طرح بڑھانا پڑیں گی، کوئی نہیں آپ صرف دو سال مزید تنگی کے گزار لیں اس کے بعد میرا وعدہ ہے کہ یہاں لہریں بہریں ہو جائیں گی۔

آپ دیکھیں ہم نے کے پی میں اربوں درخت لگائے ہیں، اپوزیشن اتنی نااہل ہے اس میں گنتی کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ، بس الزام بازی ہے کہ درخت کم لگے ہیں۔ جو دو خاندان پچھلے تیس سالوں سے ملک کو لوٹ رہے ہیں میں ان دونوں خاندانوں کی خدمت میں درخواست کرتا ہوں کہ اپنی دولت واپس لے آئیں میں اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں آدھی کردوں گا یہ میرا قوم سے پکا وعدہ ہے، اس پر کوئی زبان دان مجھے اس نوع کا محاورہ سنانے کی کوشش نہ کرے کہ ’’نہ ہوگا نو من تیل نہ رادھا ناچے گی‘‘ ورنہ ہم مراد سعید کو سامنے لے آئیں گے جو تین برس قبل کہتا تھا کہ میرا کفتان حکومت میں آئے گا اور اگلے روز لوٹے گئے دو ارب ڈالر واپس لائے گا، ایک ارب بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لئے ان کے منہ پر مارے گا دوسرا ارب عوام میں بانٹ دے گا لیکن کیا کریں مغربی عدالتی نظام بھی بڑا کرپٹ ہے،مجھ سے زیادہ اسے کوئی نہیں جانتا وہ جس نوع کے پکے ثبوت مانگتے ہیں وہ ہم کہاں سے لائیں؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔