بلاگ
Time 11 نومبر ، 2021

ریاست بے بس نہیں ہوتی

تازہ ارشاد ہے کہ’’جس معاشرے میں اخلاقیات تباہ ہوں وہاں کرپشن کا ناسور نکل آتا ہے، پھر وہ این آر او دیتا ہے، چوروں لٹیروں سے ڈیل کرتاہے، طاقتور کو اوپر رکھ کر انصاف نہیں کیا جا سکتا‘‘، کیا یہاں کچھ سوالات کے اضافے کی جسارت کی جا سکتی ہے۔ 

سب سے پہلے تو یہ کہ حالیہ برسوں میں یہاں اخلاقیات کا جنازہ کس نے نکالا ہے؟ کون ہے بداخلاقی پھیلانے میں جسے اپنی زبان پر کبھی قابو نہ رہا ہے۔ اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف جو زبان حالیہ برسوں میں استعمال کی گئی اس کا نتیجہ سوائے اخلاقیات کی تباہی کے اور کیا نکلنا تھا؟

پچھلی حکومتوں کے ادوار میں اگر قرضے لئے جاتے تھے تو قوم کو ترقیاتی منصوبہ جات بھی دکھائی دیتے تھے۔ بالخصوص نواز دور کا انفراسٹرکچر سب کے سامنے ہے مگر حالیہ تین برسوں میں جو خطیر قرضے لئے گئے ہیں، ان کے بدلے میں عوام کو سوائے شدید ترین مہنگائی کے اور کیا ملا؟ دوسروں کو چور چور کہنے سے کوئی چور نہیں ہو جاتا۔

 تین برس ہو گئے ماشاء اللہ آپ کوراج سنگھاسن پر براجمان ہوئے۔ سابق حکمرانوں کی کتنی کرپشن آپ نے پکڑی ؟ اگر آپ کے پاس ثبوت نہیں ہیں تو اخلاقاً آپ کو الزام عائد کرنے کا حق بھی نہیں ہونا چاہئے ۔ کیا دوسروں کی عزتوں کو بلاجواز و ثبوت اچھالنا بد اخلاقی کی زیل میں نہیں آتا؟ کیا خوب فرمایا جا رہا ہے کہ ’’برائی وزیراعظم اور وزیروں سے شروع ہو کر نیچے تک جاتی ہے‘‘۔ جب آپ کو یہ علم ہے تو آپ نے گزشتہ تین برسوں میں اس کی روک تھام کے لئے کیا کیا؟

وہ کون تھا جو عوامی اجتماعات میں کہتے نہیں تھکتا تھا ’’مہنگائی تب ہوتی ہے جب وزیراعظم کرپٹ ہو‘‘۔

آج یہ غریب قوم پوچھ رہی ہے کہ موجودہ شدید ترین مہنگائی کا باعث بننے والا ، ان بدترین حالات میں بھی جب اس کی حکومت ہر حوالے سے ناکام ہو چکی ہے، وہ کرسی پر براجمان کیوں ہے؟ مستعفی کیوں نہیں ہو جاتا؟ ڈسکہ کی منظم دھاندلی کے باقاعدہ ثبوت بھی ایک باوقار قومی ادارے کی طرف سے سامنے لائے جا چکے ہیں کیا اس میں اکیلی فردوس عاشق اعوان ہی ملوث تھی؟ کیا وہ محض تنہا اپنے تئیں اتنی بڑی بڑی چھلانگیں مار سکتی تھی؟ واضح کیا جائے کہ اوپر سے ہدایات جاری کرنے والا تلقین شاہ کون تھا؟

اگر سرکار کو اتنی سمجھ ہے کہ طاقتور کو اوپر رکھ کر انصاف نہیں کیا جا سکتا تو پھر سرکار یہ واضح کرے کہ وہ طاقتور متشدد اور مسلح گروہوں کے ساتھ خفیہ معاہدے کس آئین، قانون اور اخلاقی اصول کے تحت قبول کر رہی ہے، جن لوگوں نے ہمارے بچوں کو ببانگ دہل پوری سفاکی کے ساتھ قتل کیا آپ کس برتے پر ان کے ساتھ مذاکرات کرتے اور ایسے معاہدے قبول کرتے ہیں جو ریاست پاکستان کے اِس چہرے کو مسخ کرنے کے مترادف ہیں۔

کیا ریاست پاکستان میں امن و امان کے ذمہ دار ادارے اور ان کے جوان اس ریاست کے بچے نہیں ہیں؟، قانون کی علمداری میں اگر وہ اپنی جانیں گنواتے ہیں تو کیا محض اپنی حکمرانی کو طول دینے کے لئے ان کے خون ِ ناحق کو صرفِ نظر کیا جا سکتا ہے یا کیا جانا چاہئے؟ انہیں سیدھی گولیاں مارنے والوںکی تحقیق و تفتیش کیوں نہیں کی جا رہی؟

 قاتلوں کو کیوں کٹہرے میں نہیں لایا جا رہا ؟ ان کے بچے یتیم ہو گئے ہیں تو کوئی حکومتی کارندہ انہیں دلاسہ دینے تک نہیں گیا ؟یہ کونسا اصول،انصاف یا قانون ہے کہ جن لوگوں کو چند روز قبل آپ پوری قوم کے سامنے انڈین ایجنٹ قرار دیتے ہو، ’’را‘‘ سے رقوم وصولی کے الزام لگاتے ہو، دہشت گرد اور قاتل گردانتے ہو، ان کے متعلق اب یوٹرن لیتے ہوئے اعلان کر رہے ہو کہ خبردار اب انہیں کوئی کالعدم نہ کہے، اگر ان کے ساتھ سابق غلط معاہدوں سے آپ پھرے تھے یا وہ پھرے تھے تو اس میں قصوروار آپ ہیں قوم کا تو کوئی قصور نہیں، جس کی اصل بربادی ہو رہی ہے۔

طاقت اور دہشت کے آگے جھکنا اور کیا ہوتاہے؟ اب کالعدم سپاہ صحابہ(اہلِ سنت والجماعت)، کالعدم تحریک نفاذ فقہ جعفریہ، کالعدم لشکر طیبہ، کالعدم جیش محمد یا الطاف حسین کی ایم کیو ایم بھی کیا یہ سوال نہیں اٹھا سکتی کہ یہاں تو عزت و وقار اس کو ملتا ہے جو قانون کو ہاتھ میں لیتے ہوئے عسکری جتھہ لےکر سڑکوں پر نکلے قومی املاک کو کروڑوں اربوں کا نقصان پہنچائے،قانون کے محافظوں کے سینوں میں گولیاں اتارے۔ اس کے بعد انہیں قومی دھارے میں شامل کرتے ہوئے، سیاست میں استعمال کرنے کیلئےتمام حقوق مرحمت فرما دیے جائیں ۔

آج کہاں ہیں نیشنل ایکشن پلان تشکیل دینے اور اس پر عملدرآمد کی ذمہ داری اٹھانے والے؟ جو پوری دنیا کے سامنے اس نوع کی تفصیلات بیان کرتے نہیں تھکتے تھے کہ ان دہشت گردوں نے ہمارے ستر ہزار لوگوں کی جانیں لی ہیں قریہ قریہ ان لوگوں نے خود کش حملوں کے ذریعے ہماری زندگیاں اجیرن بنادی ہیں، انڈیا نے انہیں ہمارے خلاف منظم کر رکھا ہے۔ انہیں بھاری فنڈنگ کی جاتی ہے ۔

آج کی تازہ خبر یہ ہے کہ جو برے تھے وہ بھی اب اچھے گردانے جائیں گے اس لئے کہ شاید پاکستانی ریاست ان کا مقابلہ کرنے اور ان قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کا یارا نہیں رکھتی۔ وہ ان کے سامنے بے بس ہے کہ انہیں معاف کر دے، اس کے بعد قوم کو بھاشن دیا جاتا ہے کہ ہم کسی طاقتور کو این آر او نہیں دیتے کسی کو اوپر نہیں رکھتے۔ یعنی دہشت کے سامنے سرنگوں ہونے کے بعد اب قومی نمائندوں کو بریفنگ دینی ہے اور معاملہ پارلیمنٹ میں لانا ہے۔

جو امریکا و انڈیا کی ایجنٹ حکومت تھی اس نے تو ان لوگوں کو جیلوں میں بند کر رکھا تھا مگر اب ان سب کو آزادیاں دیتے ہوئے ہمارے بالمقابل لاکھڑا کیا گیا ہے؟اس گڈ ہمدرد حکومت کی ساورنٹی پوری دنیا سے منوانے کیلئے جلاب ہمارے دفتر خارجہ کو کیوں لگے ہوئے ہیں اس لئے کہ ہماری داخلہ کے ساتھ ساتھ خارجہ پالیسیاں بھی ولولہ انگیز ہیں۔

کیا ہمیں یہ بھی بھول گیا ہے کہ حالات و واقعات کیسے ہی ہوں، ریاست کبھی بے بس نہیں ہوتی۔ یہ حقیقت ہم جتنی جلدی باور کر لیں اُتنا ہی اچھا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔