میں ’’اُن‘‘ کا ایجنٹ ہوں!

ہمارے ہاں بعض سیاستدان اپنے بارے میں مسلسل یہ تاثر دینے میں لگے رہتے ہیں کہ وہ امریکہ کے آدمی ہیں چنانچہ جب بھی فضا میں گھٹن ہوتی ہےیہ فلم پھنے خان میں مجھے خان کا کردار ادا کرنے والے علاؤ الدین کی طرح اپنی قمیض کے دامن سے پنکھا کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’بڑی گرمی ہے‘‘ اور اس دوران ان کے نیفے میں اڑسا ہوا ’’امریکہ‘‘ نظر آجاتا ہے، جس سے بے چارے دیکھنے والے سہم کر رہ جاتے ہیں۔

ایک اسی طرح کے پھنے خان سیاست دان سے میری ملاقات رہتی ہے ۔ایک دن کافی دیر تک مجھے یہ تاثر دیتے رہے کہ وہ امریکہ کے آدمی ہیں اشاروں، کنایوں میں انہوں نےمجھے یہ بھی بتا دیا کہ تھوڑی دیر پہلے جو فون کی گھنٹی بجی تھی وہ صدر بائیڈن کی تھی۔ 

انہوں نے مجھے یہ تاثر دینے کی کوشش بھی کی کہ وہ ان دنوں صرف سگنل کے منتظر ہی لیکن جب ان کے بارے میں میرا ایمان بالکل ڈانوا ڈول نہ ہوا تو انہوں نے مجھے ایک اور طرف سے آلیا۔کہنے لگے یہ تو تم جانتے ہی ہو گے کہ پاکستان ایسے ترقی پذیر ملکوں میں کوئی حکومت امریکہ کی مرضی کے بغیر نہیں بنتی۔ 

میں نے کہا غالباً آپ ٹھیک کہتے ہیں پھر فرمانے لگے ’’اور یہ بھی تمہیں معلوم ہوگا کہ کوئی حکومت امریکہ کی مرضی کےبغیر جاتی بھی نہیں، میں نے کہا غالباً آپ یہ بھی ٹھیک فرماتے ہیں پھر انہوں نے مجھے یہ شعر بھی سنایا۔

بے وقار آزادی ہم غریب ملکوں کی

سر پہ تاج رکھا ہے بیڑیاں ہیں پائوں میں

میں نے اس شعر پر داد دی تو کہنے لگے ’’لوگ میرے بارے میں ایسے ہی افواہیں اڑاتے رہتے ہیں کہ میں امریکہ کا آدمی ہوں حالانکہ صدر بائیڈن سے میرے تعلقات محض ذاتی نوعیت کے ہیں اگر ہوسکے تو کبھی اپنے کالم میں میرے بارے میں یہ غلط تاثر دور کرنے کی کوشش کرنا۔ 

اس پر مجھے اپنے ایک شاعر دوست یاد آگئے۔ پہلے مجھے وہ اپنے بارے میں کوئی نہایت مضحکہ خیز سی خبر سناتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ کہیں اس پر کالم نہ لکھ دینا اور جب انہیں یقین ہو جاتا ہے کہ میں اس پر کالم ضرور لکھوں گا تو آخر میں وہ یہ درخواست کرتے ہیں چلو ٹھیک ہے کالم لکھ دینا لیکن یار کہیں ساتھ میری تصویر نہ چھاپ دینا اور پھر اگلے روز وہ مجھے کالم لکھنے پر برا بھلا کہتے ہیں اور اٹھتے اٹھتے اپنے حوالے سے ایک اور مضحکہ خیز خبر سناتے ہوئے کہتے ہیں ’’میں جانتا ہوں تم کمینے آدمی ہوتم میرے روکنے سے بھی کالم لکھنے سے نہیں رکو گے۔ اور تم تصویر چھاپنے سے بھی باز نہیں آئو گے۔ 

چلو اگر دوستوں کو ذلیل کر کے تمہیں خوشی ملتی ہے تو ہم کیاکہہ سکتے ہیں مگر تصویر یہ والی چھاپنا اور اس کے ساتھ وہ اپنی تازہ تصویر بھی عطا کر دیتے ہیں۔ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ کالم نگار کے علاوہ کالم میں کسی اور کی تصویر شائع نہیں ہوتی۔

میں نے ابھی جس سیاست دان کا ذکر کیا ہے کہ وہ اکیلے نہیں ہیں جنہیں پاکستان میں امریکہ کے ’’نمائندہ خصوصی‘‘ ہونے کا دعویٰ ہو اور وہ اس ’’شہرت‘‘ پر خوش ہوتےہوں بلکہ ایسے کئی ’’دانے‘‘ ہمارے ہاں اور بھی ہیں، جو خود یا ان کے حواری ان کا نام بڑی طاقتوں سے نتھی کرکے ہم کمزور دلوں کو دہلاتے رہتے ہیں۔

حتیٰ کہ ان کی اتنی رازداری سے کی گئی بات بچے بچے کی زبان پر آجاتی ہے مجھے یاد آیا جس طرح ہمارے ہاں سکھوں کے لطیفے مشہور ہیں۔ اسی طرح یورپ میں پولینڈ کے لوگوں کے لطیفے زبان زد عام و خاص ہیں۔ مشتے نمونہ از خروارے۔ ایک’’ سفارتی ‘‘نمائندے کو بعض انتہائی اہم نوعیت کی دستاویزات حاصل کرنے کے لئے پولینڈ کے ایک جاسوس کے پاس بھیجا گیاجو سی آئی اے کے لئے کام کرتا تھا اور اس کا نام جارج تھا۔

کوڈ لفظ یہ دیا گیا کہ ’’بڑی گرمی ہے‘‘ چنانچہ جب یہ ’’سفارتی‘‘ نمائندہ لمبا سفر طے کر کے پولینڈ کے اس قصبے میں پہنچا جہاں وہ انتہائی خفیہ جاسوس رہتا تھا تو اس نے ایک بار میں داخل ہو کر شراب کا آرڈر دیا اور اسی دوران بار والے سے پوچھا ’’یہاں جارج نام کا کوئی شخص رہتا ہے؟‘‘ اس نے کہا ’’جارج نام کے کئی لوگ اس قصبے میں رہتے ہیں ایک جارج لوہار ہے۔

ایک جارج ٹائپسٹ ہے۔ ایک جارج انجینئر ہے۔ حتیٰ کہ خود میرا نام بھی جارج ہے۔‘‘ اس پر طویل سفر طے کر کے آنے والے شخص نے کہا ’’بڑی گرمی ہے‘‘ یہ سن کر بار والے نے کہا۔ ’’اچھا اچھا تم جارج جاسوس کے بار ےمیں پوچھ رہے ہو۔‘‘ 

جن سیاست دانوں کا میں ذکر کر رہا ہوں وہ بھی عالمی طاقتوں کے اتنے ہی خفیہ نمائندے ہیں کہ ان کے کوڈ خفیہ نہیں رہتے اور یوں بچہ بچہ ان سے واقف ہے، کیونکہ قمیض کے دامن سے پنکھا کرتے ہوئے یہ کوڈ وہ خود دہراتے ہیں کہ ’’بڑی گرمی ہے‘‘ جس سے علاقے میں ان کی ٹور بنی رہتی ہے۔

تاہم یہ خفیہ، اسی طرح کے ’’خفیہ‘‘ ہیں جس طرح کے ایک جلسے کا اعلان سردار جی کررہے تھے کہ ’’سجنو تے مترو! آج خالصوں کا خفیہ جلسہ فلاں جگہ پر فلاں خفیہ مقام پر فلاں وقت ہورہا ہے، سارے مترو وہاں پہنچ جائیں۔‘‘

اب اگر سنجیدگی سے اس مسئلے کے بارے میں میری رائے پوچھی جائے تو بات یہ ہے کہ جنگل ایک ہے بادشاہت کے خواہش مند بہت سے ہیں۔جس کے پاس طاقت ہو وہ بادشاہ بن جاتا ہے، کیونکہ جنگل کا قانون بھی یہی ہے تاہم کبھی کبھی اس ضمن میں کوئی ’’سانحہ‘‘ بھی پیش آجاتا ہے۔ 

جنگل کا بادشاہ ایک روز سیر ہو کر اپنی کچھار سے نکلا۔ رستے میں اسے ایک لومڑی نظر آئی بادشاہ سلامت نے اسے حقارت سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’اوئے جنگل کا بادشاہ کون ہے؟‘‘ لومڑی نے ہاتھ جوڑ کر کہا ’’حضور آپ جنگل کے بادشاہ ہیں۔ تھوڑی دیر بعد ایک گیدڑ سامنے سے گزرا بادشاہ سلامت نے اسے گالی دے کر پاس بلایا اور کہا ’’اوئے جنگل کا بادشاہ کون ہے؟‘‘ گیدڑ نے کہا ’’مائی باپ، آپ کے علاوہ کون ہوسکتا ہے!‘‘ اتنے میں ایک ہاتھی سامنے آگیا۔

شیر نے جسے خوراک ’’چڑھی‘‘ ہوئی تھی۔ اسے بھی روکا اور کہا اوئے بتائو جنگل کا بادشاہ کون ہے؟‘‘ ہاتھی نے یہ سن کر جنگل کے بادشاہ کو اپنی سونڈ میں لپیٹا اور اٹھا کر پرے پھینک دیا شیر خفیف سا ہو کر اپنی جگہ سے اٹھا اور کہا ’’قبلہ اس میں اتنا ناراض ہونے کی بات کون سی تھی۔اگر آپ کو نہیں پتہ تھا کہ جنگل کا بادشاہ کون ہے۔ تو مجھ سے پوچھ لیتے۔ 

سو دنیا بھر کے جنگل کے بادشاہوں کو میرا مشورہ ہے کہ وہ گیدڑوں اور لومڑیوں پر بے شک ساری عمر اپنی بادشاہت کا رعب جماتے رہیں لیکن اگر کبھی ان کا سامنا کسی ’’ہاتھی‘‘ سے ہو جائے تو اس وقت ادھر ادھر ہو جائیں یا کم از کم اس سے یہ نہ پوچھیں کہ ’’جنگل کا بادشاہ کون ہے؟‘‘


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔