06 دسمبر ، 2021
مارچ 1971 ءکے دن تھے جب قائد اعظم کے پاکستان کی بنیاد کھودی جا رہی تھی۔ مشرقی پاکستان میں شفیع الاعظم چیف سیکرٹری تھے جنہیں عملی طور پر حکومت اور شیخ مجیب الرحمن کے درمیان رابطہ کار کی حیثیت بھی حاصل تھی۔
ایک اعلیٰ فوجی افسر نے خانہ جنگی کے بڑھتے ہوئے خدشات کے پیش نظر شفیع الاعظم سے کہا کہ وہ شیخ مجیب الرحمن کو عوامی جذبات ٹھنڈا کرنے پر قائل کریں۔ شفیع الاعظم نے بغیر کسی جھجک کے زمینی حقیقت بیان کرتے ہوئے کہا، ’’جنرل صاحب آپ کے پاس توپیں اور بندوقیں ہیں، شیخ صاحب کے پاس عوامی جذبات ہیں۔ شیخ صاحب عوامی جذبات کو ٹھنڈا نہیں ہونے دیں گے‘‘۔
پچاس برس پرانا یہ واقعہ دہرانے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ میں خود کو واقعہ سیالکوٹ کی بے معنی مذمت سے قاصر پاتا ہوں، اس ضمن میں جو مذمتی بیانات سامنے آئے ہیں ، انہیں پڑھتے ہوئے مردہ مکھیاں دیکھنے کا گھن آلود احساس ہوتا ہے۔
البتہ مولانا فضل الرحمن اور مفتی منیب کے بیانات سے یہ قضیہ سمجھنے میں کسی حد تک مدد ملتی ہے، مولانا فضل الرحمن فرماتے ہیں کہ ’سیالکوٹ کا واقعہ قابل مذمت ہے لیکن ریاست اگر توہین رسالت اور توہین ختم نبوت کے ملزمان کے خلاف کارروائی نہیں کرے گی تو اس قسم کے واقعات تو ہوں گے‘۔
دوسری طرف مفتی منیب کو اعتراض ہے کہ اس واقعے میں تحریک لبیک کا نام کیوں لیا جا رہا ہے۔ اس ملک کے رہنے والوں کے لئے یہ ردعمل نیا نہیں۔ دہشت گردی اور’ہجوم کے انصاف‘ کے ان گنت واقعات میں مجرموں سے فکری اور سیاسی ہمدردیاں رکھنے والے عناصر ایک مشروط مذمتی بیان سے آغاز کرتے ہیں۔
کچھ وقفے کے بعد اسی واقعے میں سچی جھوٹی تفصیل کی مدد سے دھول اڑائی جاتی ہے اور پھر کسی مناسب وقت پر منافقانہ مذمت کا پردہ اٹھا کر ریاستی عملداری کی ایک اور اینٹ کھینچ لی جاتی ہے۔ شفیع الاعظم کے استدلال میں معمولی تبدیلی سے بات سمجھ آ جاتی ہے۔ ’ریاست کے پاس توپیں اور بندوقیں ہیں، مذہبی سیاست دانوں کے پاس اشتعال انگیزی کی طاقت ہے۔
صاحبان منبر و محراب اشتعال کے شعلوں کو بجھنے نہیں دیں گے۔‘ حالیہ واقعات کے بعد تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ریاست نے اپنی قوت نافذہ سے بھی ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ اوائل نومبر میں شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کے اہل خانہ سے کسی نے تعزیت کی زحمت تک نہیں کی جب کہ طاقت کے بل پر رہائی پانے والوں کے لئے حزبِ اقتدار اور اختلاف والے بغیر کسی تخصیص کے گلدستے اٹھائے قطار اندر قطار حاضر ہوئے۔
ملتان کے راشد رحمن ایڈووکیٹ، ولی خان یونیورسٹی مردان کے مشال خان، صادق ایجرٹن کالج کے استاد خالد حمید اور خوشاب کے بینک منیجر عمران حنیف کے خون ناحق پر تو ریاست نے اتنا ردعمل بھی نہیں دیا تھا۔ پریانتھا کمارا سری لنکن شہری نہ ہوتے تو شاید یہ سانحہ بھی پولیس کی گمنام فائلوں میں دب جاتا آخر ہم نے ڈینیئل پرل قتل میں لاحاصل قانونی رسہ کشی دیکھ رکھی ہے۔
پریانتھا کمارا کا واقعہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا جب ملکی معیشت نہایت مشکل حالات سے گزر رہی ہے۔ سیالکوٹ کے اہلِ جنوں اور ملک بھر میں ان کے ہمنواؤں سے تو بات کرنا لاحاصل ہے۔ آپ سے عرض کی جا سکتی ہے کہ پاکستان کے بیرونی قرضے 127 ارب ڈالر کو پہنچ گئے ہیں۔
ہماری معیشت کے کل حجم ( 280 ارب ڈالر) کو دیکھتے ہوئے ہمارے لئے بیرونی قرض کے سود کی قسط ادا کرنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔ کل ملکی محصولات بجٹ کی دو بڑی مدات کا احاطہ کرنے کے لئے بھی ناکافی ہیں۔ ملکی آبادی دنیا میں پانچویں نمبر پرہے لیکن برآمدات میں ہمارا نمبر 67ہے۔
رواں مالی برس میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری ابھی تک صرف 238 ملین ڈالر ہے۔ سعودی عرب کی طرف سے ’’رکھوائے گئے‘‘ چار فیصد سود پر 3 ارب ڈالر کی شرائط آپ نے دیکھ لی ہوں گی۔ لندن میں بیٹھے گورنر پنجاب چوہدری سرور آئی ایم ایف کے چھ ارب ڈالر کا کچا چٹھا بیان کر رہے ہیں۔
ایف ٹیف کی گرے لسٹ سے اب تک 50 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا اور حالیہ واقعات کے بعد آئندہ اجلاس بھی اچھی خبر نہیں لائے گا۔ 1190 ڈالر کی فی کس آمدنی کے ساتھ ہم دنیا میں 181نمبر پر ہیں اور آئندہ ہفتے منی بجٹ کے ہمراہ مہنگائی کا ایک طوفان نمودار ہو گا۔ اس اندھے کنویں سے معیشت کو کیسے باہر نکالا جائے۔ بیرونی سرمایہ کاری بڑھائی جائے اور برآمدات میں اضافہ کیا جائے۔
سیالکوٹ جیسے واقعات سے بیرونی سرمایہ کار کا اعتماد کیسے بحال ہو گا؟ اور برآمدات میں ہم کب تک بستر کی چادریں بیچتے رہیں گے۔ یہ خبر تو آپ نے جان لی ہو گی کہ سیلیکون ویلی میں سائبر دنیا کی تمام اہم ترین کمپنیوں پر بھارتی شہری سربراہ بن گئے۔ بھارت نے انسانی سرمائے میں سرمایہ کاری کا سفر 30برس پہلے شروع کیا تھا۔
ہم ان دنوں اپنی نوجوان نسل کو جنون کے انجکشن لگا رہے تھے۔ محترم نجم سیٹھی کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ’جیو اسٹرٹیجک‘ کی بجائے ’جیو اکنامکس‘ کی پالیسی تجویز کر رہے ہیں مگر حکومت اس کے سیاسی ردعمل سے خائف ہے۔ ظالمو، آرمی چیف کی باقی باتیں آنکھیں بند کرکے مانتے ہو، اس عقل کی بات پر بھی توجہ دے لو۔ ’جیو اکنامکس‘ محض معیشت کا معاملہ نہیں، اس کے لئے خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہوگی، بامعنی نظام تعلیم میں سرمایہ کاری کرنا ہو گی۔
نیز یہ کہ معیشت خلا میں ترقی نہیں کرتی، اس کے لئے سیاسی استحکام اور ریاستی شفافیت کی ضرورت پڑتی ہے۔ ٹھیک 40برس قبل ہم نے قلیل مدتی مقاصد کے لئے لسانی اور فرقہ وارانہ تنظیمیں کھڑی کی تھیں۔ نتیجہ دیکھ لیا؟ معاشی بدحالی، سیاسی انحطاط اور قومی وقار کی بربادی۔ ابھی وقت ہے کہ ملک کو مذہبی اشتعال کی کیفیت سے نجات دلا کر معیشت، پیداوار اور تعلیم کے راستے پر گامزن کیا جائے۔ یہ سفر طویل سہی لیکن معاشی ترقی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔