پاکستان
Time 19 دسمبر ، 2021

’مستحکم افغانستان ہی دہشتگردی کے خاتمے کیلئے معاون ثابت ہو سکتا ہے‘

اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی) کے افغانستان کی صورت حال پر غیر معمولی اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ دنیا نے اقدامات نہ کیے تو یہ انسانوں کا پیدا کردہ سب سے بڑا انسانی بحران ہو گا۔

او آئی سی کے غیر معمولی اجلاس کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا جس کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افتتاحی سیشن سے خطاب کیا۔

وزیراعظم عمران خان کا او آئی سی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا تمام معزز مہمانوں کو پاکستان میں خوش آمدید کہتا ہوں، خوشی کی بات ہے کہ اجلاس میں شامل تمام ممالک افغانستان کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں۔ 

ان کا کہنا تھا کسی بھی ملک کو افغانستان جیسی صورت حال کا سامنا نہیں رہا، افغانستان میں سالہا سال کرپٹ حکومتیں رہیں، افغانستان کی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے اور بینکنگ نظام جمود کا شکار ہے۔

 افغانستان کی مدد کرنا ہماری مذہبی ذمہ داری بھی ہے: عمران خان

انہوں نے مزید کہا کہ افغان جنگ میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان نے اٹھایا، پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 80 ہزار سے زائد قربانیاں دیں، 30 لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ بردا شت کیا اور اب بھی لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان میں بس رہے ہیں۔

وزیراعظم اور وزیر خارجہ او آئی سی اجلاس میں خطاب سن رہے ہیں۔ فوٹو: او آئی سی
وزیراعظم اور وزیر خارجہ او آئی سی اجلاس میں خطاب سن رہے ہیں۔ فوٹو: او آئی سی

وزیراعظم کا کہنا تھا افغانستان میں سالہاسال کرپٹ حکومتیں رہیں، افغانستان کا 75 فیصد بجٹ غیر ملکی امداد پر رہا لیکن اب افغانستان کو بیرونی امداد بند ہو چکی ہے، اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری مائیکل گرفٹ نے جو اعداد و شمار دیے وہ حیران کن ہیں، یہ مسئلہ افغان عوام کا ہے، ہم پہلے ہی تاخیر کا شکارہیں۔

عمران خان کا کہنا تھا طالبان وزیر خارجہ سے ایک ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے کہا وہ اپنی شرائط پر عمل درآمد کے لیے تیار ہیں، دنیا نے اقدامات نہ کیے تو یہ انسانوں کا پیدا کردہ سب سے بڑا انسانی بحران ہو گا، المیہ یہ ہے کہ 41 سال پہلے پاکستان میں افغانستان کیلئے کانفرنس ہوئی تھی۔

اسلام مخالف پروپیگنڈے کے تدارک کیلئے ہمیں ایک موثر آواز بننا ہے: وزیراعظم

ان کا کہنا تھا ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ افغانستان میں عدم استحکام سے ایسے عناصرمضبوط ہوں گے، افغانستان میں عدم استحکام سے مہاجرین کا مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔ 

عمران خان کا کہنا تھا افغانستان کی مدد کرنا ہماری مذہبی ذمہ داری بھی ہے، کشمیر اور فلسطین کےعوام ہماری طرف دیکھ رہے ہیں، فلسطین اور کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔

افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی اجلاس میں شریک۔ فوٹو: او آئی سی
افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی اجلاس میں شریک۔ فوٹو: او آئی سی

انہوں نے کہا کہ دینا میں اسلامو فوبیا بھی بہت بڑا مسئلہ ہے، اسلامو فوبیا کے خاتمے کے لیے او آئی سی کردار ادا کرے، ہمارے معاشرے میں بھی کچھ عناصر نفرت پھیلانے کے لیے مذہب کا استعمال کرتے ہیں، کوئی بھی مذہب دہشتگردی کی اجازت نہیں دیتا لیکن بدقسمتی سے اسلام کے بارے میں بہت پروپیگنڈا کیا گیا، نائن الیون کے بعد اسلاموفوبیا کی لہر میں شدت آئی۔

ان کا کہنا تھا دہشتگردی اور اسلام کو جوڑا گیا اور ریڈیکل اسلام کی ٹرم بنائی گئی، اس سب کے نتیجے میں اسلامو فوبیا پیدا ہوا، ہم نے پاکستان میں رحمت للعالمین اتھارٹی بنائی ہے جس کا ایک مقصد ہے کہ اگر نبی کریم ﷺ کا کوئی خاکہ آئے تو اس کا سوچا سمجھا جواب دیا جائے، نبی کریم ﷺ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا، اسلام مخالف پروپیگنڈے کے تدارک کیلئے ہمیں ایک موثر آواز بننا ہے۔

افغانستان کو انسانی المیے سے بچانے کے لیے امت مسلمہ اپنا کردار ادا کرے: شاہ محمود قریشی

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ او آئی سی کا اجلاس افغانستان کے لوگوں کے مسائل سے متعلق ہے، افغانستان کے عوام کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے، افغانستان کی نصف آبادی کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے اور ورلڈ فوڈ پروگرام بھی افغانستان میں خوراک کی کمی کے مسئلے کی نشاندہی کر چکا ہے۔

ان کا کہنا تھا سعودی قیادت کا وزرائےخارجہ اجلاس بلانا قابل تعریف ہے، سیکرٹری جنرل ابراہیم طحہ اور ان کی کاوشیں قابل تعریف ہیں، افغانستان کو انسانی المیے سے بچانے کے لیے امت مسلمہ اپنا کردار ادا کرے۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ آج کا اجلاس افغانستان کے لوگوں کے مسائل سے آگاہی کے لیے ہے، یہ اجلاس افغانستان کی بقاء کے لیے بہت اہم ہے، افغان عوام کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہم متحد اور ان کے ساتھ ہیں، افغانستان کے حوالے سے ہماری آواز دنیا تک پہنچ گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 40 سال قبل بھی پاکستان نے افغانستان کے لیے اسی طرز کا اجلاس بلایا تھا، پاکستان ایک بار  پھرافغانستان میں انسانی بحران کے حل کے لیے کوشاں ہے۔

ہمیشہ افغانستان کے مسئلے پر مضبوط موقف اپنایا: سیکرٹری جنرل او آئی سی

سیکرٹری جنرل او آئی سی ابراہیم حسین طلحہ کا اجلاس سے خطاب میں کہنا تھا کہ پاکستان نے خطے میں امن کے لیے کلیدی کردار ادا کیا، پاکستان نے افغان بحران کے حل کے لیے عزم کا اظہار کیا اور افغانستان میں امن خطے میں امن کے لیے ضروری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے عوام کو مدد کی اشد ضرورت ہے، او آئی سی نے ہمیشہ افغانستان کے مسئلے پر مضبوط موقف اپنایا، افغانستان میں تیزی سے بدلتی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں، یہ اجلاس افغانستان کی مدد کے لیے کامیاب ہوگا۔

سیکرٹری جنرل او آئی سی ابراہیم حسین طلحہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغانستان میں امن کے لیے علاقائی اور عالمی تعاون کی ضرورت ہے۔

افغانستان میں کشیدہ صورت حال کے خطے اور دنیا پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں: سعودی وزیر خارجہ

سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان کا او آئی سی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان نے کم ترین وقت میں اجلاس کو ممکن بنایا، اجلاس کے انعقاد پر پاکستان سے اظہار تشکر کرتے ہیں، اجلاس میں شرکت پر سیکرٹری جنرل او آئی سی اور دیگر کے شکر گزار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ خواتین اور بچوں سمیت افغان عوام مشکلات کا شکار ہیں، افغانستان میں معاشی بحران مزید خراب ہو سکتا ہے، افغانستان میں کشیدہ صورت حال کے خطے اور دنیا پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، افغانستان کے عوام ہماری مدد کے منتظر ہیں اور ہم افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں، افغانستان کے معاملے کو انسانی بنیادوں پر دیکھنا ہو گا۔

سعودی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ افغانستان کو غذائی امداد اور مالیاتی اداروں کے استحکام کی ضرورت ہے، عالمی ادارے افغان عوام کی مدد کے لیے آگے بڑھیں۔

افغانستان میں انسانی بحران مسلم ممالک کیلئے چیلنج ہے: ترک وزیر خارجہ

او آئی سی وزرائے خارجہ کے غیر معمولی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ترک وزیر خارجہ کا کہنا تھا افغانستان کے بحران پر مثبت اقدامات کو سراہتے ہیں لیکن افغانستان میں انسانی بحران مسلم ممالک کے لیے چیلنج ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ افغان عوام کو خوراک کی کمی سمیت بہت سے مسائل کا سامنا ہے، افغانستان کی صورتحال کے اثرات دیگر ممالک پر بھی مرتب ہوں گے، او آئی سی کو دیگر عالمی اداروں سے مل کر افغان بحران پر قابو پانا چاہیے۔

بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو پوری دنیا متاثر ہو گی: نمائندہ سیکرٹری جنرل

سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کے نمائندے مائیکل گریفن کا افغانستان کی صورت حال پر اجلاس سے خطاب میں کہنا تھا میرا خطاب سیکرٹری جنرل کا خطاب ہے جو میں پڑھ کر سنا رہا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کا بحران بہت بڑا ہے، 80 فیصد افغان عوام روزمرہ اخراجات پورے کرنے سے قاصرہیں، افغانستان میں بےروزگاری 29 فیصد تک بڑھ سکتی ہے۔

مائیکل گریفن نے مزید کہا کہ افغانستان میں لاکھوں بچے تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں، 70 فیصد اساتذہ تنخواہوں سے محروم ہیں، افغانستان کی معیشت بحران اور کرنسی گراوٹ کا شکار ہے۔

او آئی سی اجلاس کا ایک منظر۔ فوٹو: او آئی سی
او آئی سی اجلاس کا ایک منظر۔ فوٹو: او آئی سی

یواین نمائندے کا کہنا تھا کہ بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو پوری دنیا متاثر ہو گی، افغانستان ٹرسٹ فنڈ کو خوش آمدید کہتا ہوں، افغانستان کے عوام سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا افغان عوام موسم سرما صرف مدد کے ساتھ نہیں گزار سکیں گے، ہمیں افغانستان کو صحت اور لائیولی ہڈ کے لیے مدد بھی دینا ہوگی۔

مزید خبریں :