بلاگ
Time 05 جنوری ، 2022

گرین لائن، کے سی آر اور نیا سال

— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

کراچی میں اگلے ہفتے سے گرین لائن بس سروس مکمل طورپر فعال کی جارہی ہے۔ مجوزہ پانچ بس لائنوں یعنی اورنج،  ریڈ، بلیو،  یلیو اور گرین میں سے صرف ایک گرین بس لائن کا چلایا جانا بھی شہریوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔  شہری یہ بھول گئے ہیں کہ جس منصوبے کا آغاز سن 2016 کےنواز دور میں کیا گیا تھا، عمران دور میں وہ دُگنی قیمت پرتیار ہواہے۔

شہری خوش ہیں کہ یہ گرین لائن بس سروس سُرجانی سے نمائش تک ہی سہی، 21 کلومیٹر کا فاصلہ ائرکنڈیشنڈ بسوں میں سُکون سے تو کٹے گا۔

یہ الگ بات ہے کہ دسمبر سن2012 میں جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی یعنی جائکا کی جانب سے تیار پہلی فزیبلیٹی رپورٹ میں یہ سفر سُرجانی سے ٹاور تک رکھا گیا تھا یہ بھی واضح کیا گیا تھا کہ شہر کے مختلف علاقوں سے لوگ سب سے زیادہ سفر صدر، سائٹ صنعتی ایریا، کورنگی اور لانڈھی صنعتی علاقوں کی جانب کرتے ہیں۔

پہلے ماسٹرپلان میں یہ تخمینہ بھی لگایا گیا تھا کہ سن 2023 تک کراچی میں شہری علاقوں کارقبہ دگنا ہوجائے گا، گڈاپ ٹاون، بن قاسم ٹاون اور کیماڑی ٹاون میں آبادی کی شرح غیرمعمولی تیزی سے بڑھے گی۔ ان باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے بس سروس کی ایک سمت میں ہرگھنٹے 43 ہزار افراد کوسفری سہولت دینے کا پلان بنایاگیاتھا۔ موجودہ حکومت اسے کم کرکے 29 ہزار 400 پر لے آئی ہے مگر ماس ٹرانزٹ کو ترسے کراچی والے سجدہ شکر ادا نہ کریں تو کیا کریں۔

جاپانی ماہرین نے گرین لائن بس سروس کا یہ ماسٹرپلان شہر کی خوفناک حد تک بڑھتی آبادی کو درپیش ٹریفک مسائل پیش نظر رکھ کر بنایا تھا۔ عام طورپر ماس ٹرانزٹ کے ایسے بڑے اور پوے شہر کا احاطہ کرنے والے منصوبے ریلوے لائن کے متبادل کے طورپر بنائے جاتے ہیں۔ شاید یہی سوچ کر حکومت نے گرین لائن بس سروس کو شہریوں کے لیے سال نو کا ایسا تحفہ تصور کرلیا کہ کراچی سرکلر ریلوے منصوبہ مکمل بحال کرنے کے بجائے اُسے برائے نام شروع کرکے اپنی تختی لگا دی۔

20 سال بعد بحالی اوراس کے لیے بھی دو ٹرینیں، سونے پہ سہاگہ جو چلیں بھی دن میں دو بار۔ یعنی اپنا منہ سپریم کورٹ کو دکھانے کے قابل بنانے کی حکومتی کوشش۔

سرکلر ٹرین منصوبہ

دلچپسپ بات یہ کہ جائکا ہی نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے بھی جائزہ رپورٹ تیار کی تھی۔ فروری سن 2013 میں تیار اس رپورٹ میں ابتدائی طورپرچار چار بوگیوں والی پچیس ٹرینیں بجلی کی مدد سے چلانے کا منصوبہ تھا۔ ٹکٹ خود کار نظام کے تحت ہونا تھا جس سے شہری قطاروں میں لگنے کی زحمت سے بچتے۔ 43 کلومیٹر فی گھنٹہ رفتار سے چلنے والی وہ ٹرینیں ہر چھ سے آٹھ منٹ بعد منزل پرروانہ ہونا تھیں۔

سرکلر ریلوے کی بحالی میں فنڈز کی کمی اور سرخ فیتے کا حائل ہونا اپنی جگہ ، بھلا ہو قبضہ مافیا کا جس نے ہزاروں تجاوزات بنا کر کے سی آر کی راہ میں ایسی دیوار حائل کر رکھی ہے کہ جسے ڈھانا سندھ حکومت کے لیے بھی امتحان ہے۔

گرین لائن بس سروس کا آغاز ہو یا کے سی آر کی نام نہاد بحالی، کراچی میں جاپان کے قونصل جنرل توشی کازو ایسو مورا نے بس اور ٹرین دونوں کے سفر کا مزہ لیا۔  تعریفیں کیں اور مستقبل میں مزید بہتری کے آثار دیکھے۔  یہ ممکن نہیں کہ جاپانی سفارتکار کے ذہن میں دونوں منصوبوں سے متعلق جائکا کی رپورٹیں نہ آئی ہوں۔ آخر جاپان اپنے پراجیکٹس کے حوالے سے دنیا بھر میں نام رکھتا ہے، چیزوں کے پائیدار ہونے کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جاپان کا آکاشی کائیکو پل بنانے والوں نے اس اوورہیڈ بریج کی عمر دو سو سال رکھی ہے اور تعمیر کے بیس برس صرف پینٹ کی ضرورت پیش آئی تھی۔ جب کہ یہاں 20 سال پہلے بنائے جانیوالے پلوں کی بیسیوں بار مرمت ہوچکی ہے۔

کے سی آ ر 60 برس میں بھی مکمل نہ ہوا

سوال یہ ہے کہ 1960 کی دہائی میں شروع کیے گئے کے سی آرمنصوبے کو ہماری حکومتیں 60 برس بعد بھی مکمل بحال کیوں نہ کرپائیں؟ اس حقیقت کے باوجود کہ شہر کی آبادی اب ڈھائی کروڑ تک پہنچ چکی ہے اور 99 فیصد شہری گاڑیوں، موٹرسائیکلوں اور بسوں سے سفرکرنے پر مجبور ہیں۔

منصوبوں کو حقیقت کا روپ نہ دینے کی شاید ایک اہم وجہ یہ ہے کہ ہم ان کی تکمیل کے لیے غیرملکی امداد کی راہ تکتے ہیں۔ جاپانی ادارے ہوں یا پاک چین اقتصادی کوریڈور بنانے والے چینی، کوئی بھی بغیر مفاد کے آگے نہیں بڑھتا۔  اس لیے یہ توقع بھی کیسے کی جاسکتی ہے کہ ہم یہ منصوبے کسی کے سر منڈھ دیں گے اور وہ شرما حضوری میں انہیں من وعن مان کر اپنے عوام کے خون پسینے کے ٹیکس کی رقم یہاں اڑا دے گا۔

سرمایہ لگانے والے غیرملکی آج نہیں تو کل منافع چاہیں گے، کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کا کوئی ٹھیکہ لے بھی لے تو ریلوے کی زمین سے تجاوزات اسے کون صاف کرکے دے گا؟ ٹرین کے ٹکٹ سے تو اس قدر آمدنی نہیں ہوگی کہ یہ سہولت برقرار اورمسلسل بہتربنائی جائے، اس لیے وفاق، صوبہ اور ضلعی حکومتیں کیا حصہ ڈالیں گی؟  یہی نہیں خود عوام کس قدر زمہ داری کا مظاہرہ کریں گے کہ ٹکٹ خرید کرہی سفرکریں اورسفر کےدوران ٹھالی بیٹھ کر ٹائم گزارنے کے لیے ڈبوں پر لکیریں نہ لگائیں؟ یا پان کی پینکیں مار کر غم غلط نہ کریں۔

یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں، ہمیں بدلنے میں وقت لگے گا، اسی لیے کراچی سرکلر ریلوے کی اصل حالت میں بحالی کے لیے ہمیں اس سال بھی خواب دیکھتے رہناپڑےگا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔