06 جنوری ، 2022
اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیول فارمز اور نیوی سیلنگ کلب کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا جو کل سنایا جائے گا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے درخواستوں پر سماعت کے دوران کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) حکام سے استفسار کیا کہ اگر قانون میں اجازت نہ ہو تو کیا آپ اس کو بھی این او سی جاری کر دیتے ہیں؟
انہوں نے سوال کیا کہ کیا زون فور میں 1993 میں تعمیرات ہو سکتی تھیں؟ سی ڈی اے نے بتایا کہ اُس وقت وہاں فارم ہاؤسز کی اجازت تھی۔
عدالتی استفسار پر سی ڈی اے نے مزید بتایا کہ نیوی سیلنگ کلب تاحال سر بمہر ہے، بلڈنگ بائی لاز 2020 کے تحت غیر قانونی عمارت کو منہدم بھی کیا جاتا ہے، کسی ہاؤسنگ سوسائٹی کا این او سی منسوخ ہو جائے تو اسے ٹیک اوور کرتے ہیں۔ این او سی کے بغیر کام کرنے والی غیر قانونی سوسائٹیز کے منیجمنٹ آفسز بھی سیل کرتے ہیں۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ڈائریکٹر ہاؤسنگ نیول فارمز کون ہے؟ کیا آپ ان کا آفس بھی جا کر سیل کریں گے؟ راول لیک پر اسمال ڈیمز کے کنارے تعمیرات پر کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہائی کورٹ بزنس نہیں کر سکتی، اگر ہم اپلائی کریں تو کیا این او سی جاری کر دیں گے؟ کیا آپ آئین اور قانون کے تابع نہیں؟ ایسی درخواست آنے پر آپ کا پہلا اعتراض ہی یہ ہونا چاہیے کہ درخواست زیر غور ہی نہیں لائی جا سکتی۔
بعد ازاں عدالت نے نیول فارمز اور نیوی سیلنگ کلب کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا جو کل سنایا جائے گا۔