بلاگ
Time 07 جنوری ، 2022

عثمان بزدار کی استقامت

ہر سال کے اختتام پر نئے سال میں داخل ہونے کیلئے ہم خوب نیو ائیر ریزولوشنز بناتے ہیں، کوئی موٹاپے سے چھٹکارا چاہتا ہے، کوئی جم جوائن کرنے کا عہد کرتا ہے تو کوئی کھانے میں میٹھا کم کرنے کا ارادہ کرتا ہے۔ کچھ لوگ ظاہری شکل کو بہتر بنانے کیلئے جدوجہد کرتے ہیں اور کچھ اپنی عادتیں بدلنے کے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں۔ 

یہاں تک کہ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگلے سال کوئی جھوٹ نہیں بولیں گے۔ خیر یہ جنوری کے پہلے ہفتے کی باتیں ہیں، ان کو بھولتے کسی کو زیادہ ٹائم درکار نہیں ہوتا۔ پھر زندگی چل پڑتی ہے اور ہم سب روز مرہ کی ذمہ داریوں میں اتنے الجھ جاتے ہیں کہ کہاں کا جم، اور کہاں کی نیو ائیر ریزولوشنز۔

ہماری موجودہ سیاست کا بھی کچھ یہی حال ہے۔ ساڑھے 3 سال سے سال گزر رہے ہیں مگر اپوزیشن کی نیو ائیر ریزولوشنز پورا ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ اپوزیشن چاہے وفاق کی ہو یا پنجاب کی، اس اپوزیشن کا وہی حال ہے جو 24 سالہ کام چور نوجوان کا ہوتا ہے، ہر سال جم جانے کا ارادہ کرتا ہے، نہ پھر جم جاتا ہے اور نہ ہی دفتر۔ حقیقت میں تو گھر والے بھی ایسے نوجوانوں سے تنگ ہی رہتے ہیں۔ 

اپوزیشن کے معاملے میں ان گھر والوں سے مراد ان سیاسی جماعتوں کے سپورٹرز ہیں جن کو اب نظر آرہا ہے کہ یہ اپوزیشن نہ وعدوں پر پورا اتری اور نہ ریزولوشنز کی پاسداری کرپائی۔ پنجاب میں اپوزیشن جماعت کی کرسی بڑی کمزور ہوچکی ہے، ہر نیا آنے والا سال عثمان بزدارکو مضبوط اور مستحکم بنا رہا ہے۔

 اپوزیشن کے ارکان اسمبلی ہوں یا سپورٹرز اور ووٹرز ہوں، 2022 کا سال سیاسی اعتبار سے سردار صاحب کا اور معاشی اعتبار سے صوبہ پنجاب کا سال ہوگا۔ ناقدین بھی پنجاب میں جاری ترقی کے بارے مثبت سوچ رکھتے ہیں، اور اب اپوزیشن کے ووٹرز کو بھی نظر آرہا ہے کہ کس نے ان کا وقت برباد کیا اور کس نے ان کی حقیقی معنوں میں خدمت کی۔ اپوزیشن کا نیریٹیو پہلے ہی کھوکھلا تھا، اب تو اس گنے کا رس بالکل ہی نکل چکا ہے۔

اس سب کے دوران الیکشن کا سال بھی قریب سے قریب تر آتا جارہا ہے۔ اور عمومی طور پر آخری 20 مہینوں میں جو کچھ ہوتا ہے وہ نہ صرف فیصلہ کن ہوتا ہے بلکہ یہ عرصہ سیاسی سمت کا تعین کرنے میں بھی اپنا ایک کردار ادا کرتا ہے۔ البتہ اپوزیشن کیلئے یہ ماہ کچھ خاص فیصلہ کن نہیں ہونگے، کیونکہ اپوزیشن تو ابھی اپنے رولوں سے ہی فارغ نہیں ہوئی۔ 

بہرحال عثمان بزدارکی حکومت کیلئے یہ اہم سال ہے اور ان کے ساتھ ساتھ عوام کیلئے بھی، کیونکہ عوام نے پچھلے ساڑھے 3 برسوں میں حکومت کی ترجیحات کا موازنہ کیا ہے، ان کے وعدوں کی تکمیل کے چشم دید گواہ عوام خود ہیں، اور اس آخری ڈیڑھ برس میں یہ حکومت عوام کیلئے اگلے 5 سال کے وژن کی منظر کشی کریگی۔

 آج لئے جانے والے فیصلے، آج کئے جانے والے اقدامات بیان کریں گے کہ تحریک انصاف کی حکومت اگلے پانچ سالوں میں کیا بہتری لاسکتی ہے۔ اس سب کا جائزہ عوام لیں گے اور فیصلہ عوام کریں گے۔ لیکن موجودہ حالات کم از کم یہی بتاتے ہیں کہ عوام کے پاس ایک ہی آپشن ہے کیونکہ پرانے سب آپشن عوام کیلئے بے کار ثابت ہوئے ہیں۔

جب عوام کا ذکر ہو تو نوجوانوں کا ذکر سب سے پہلے زبان پر آتا ہے کیونکہ پاکستان کا یوتھ بلج ہمارے لئے ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کی انجام دہی کیلئے کئے گئے اقدامات قوم کا مستقبل ترتیب دیتے ہیں۔ ان ہی سے پوری قوم کی امیدیں وابستہ ہیں اور ہونی بھی چاہئیں کیونکہ اس نوجوان نسل پر سرمایہ کاری وقت کا تقاضا ہے۔ پنجاب حکومت کا حالیہ فیصلہ ہی دیکھ لیں جس میں پی ایم ایس امتحانات کیلئے عمر میں 2 سال کی رعایت دے دی گئی ہے۔

 اس طرح ایسے نوجوان جو صوبائی حکومت کا حصہ بن کر معاشی اور انتظامی نظام میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں ان کیلئے آسانیاں ممکن ہونگی، ایسے ہونہار نوجوان جو پرانی ایج لمٹ کی وجہ سے امتحان نہیں دے پاتے تھے، اب آخر کار وہ بھی امتحان کیلئے اہل ہونگے۔ اسی طرح کے پالیسی اقدامات نوجوان نسل کیلئے مواقع پیدا کررہے ہیں، یعنی صرف کاروباری قرضے ہی نہیں بلکہ یوتھ کے انٹرسٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے اور ان کا ملکی ترقی میں کردار دیکھتے ہوئے کئے جانے والے فیصلے نظام میں انقلاب برپا کرنے کے مترادف ہیں۔

 اس کے علاوہ پنجاب میں بھرپور جوش و خروش سے قومی صحت کارڈ پر کام ہورہا ہے۔ یکم جنوری سے لاہور میں تو آغاز ہوچکا ہے، 20جنوری کو راولپنڈی، 9 فروری کو فیصل آباد، 22فروری کو ملتان، 2مارچ کو بہاولپور، 22مارچ کو گوجرانوالہ اور 31مارچ کو سرگودھا ڈویژن میں ان کارڈز کی تقسیم کا عمل شروع کردیا جائے گا۔ جبکہ ڈی جی خان اور ساہیوال میں پہلے ہی صحت کارڈ کی تقسیم جاری ہے، اس طرح پنجاب کے 3کروڑ خاندان 10لاکھ روپے تک کا علاج منظور شدہ سرکاری اور نجی اسپتالوں میں کروا سکیں گے۔

 اسی طرح سوشل سکیورٹی کا ادارہ پنجاب بھرکے گیارہ لاکھ مزدوروں کو بھی مزدور کارڈ جاری کررہا ہے ۔جس میں چودہ بینفٹس شامل ہیں۔سوشل سیکورٹی کے کمشنر سید بلال حیدرنے بتا یاکہ وزیر اعلیٰ اسی ماہ مزدور کارڈ کا بھی باقاعدہ اجرا کرنے والے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ میانوالی میں بھٹہ مزدوروں کے بچوں کو تعلیم دلوانے کیلئےعثمان بزدار کی ہدایت پر 4 سکول قائم کردئیے گئے ہیں۔ ان بچوں کی تصویریں دیکھ کر دلی خوشی ہوئی، ان معصوم چہروں پر مفت کتابیں اور یونیفارم ملنے پر جو خوشی ہوتی ہے وہ شاید کسی میگا انفراسٹرکچر بنانے پر بھی نہیں ملتی۔ یہ وہ سافٹ ریفارمز ہیں جو قوم کا مستقبل اور بچوں کی تقدیر بدلنے میں مدد دیں گی۔

 اس کے علاوہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے حالیہ اجلاس میں 86 کلومیٹر طویل ملتان وہاڑی روڈ اور فیصل آباد، چنیوٹ، سرگودھا روڈ کے نظر ثانی شدہ منصوبوں کی بھی اصولی منظوری دی گئی۔ چنانچہ یہ کہنا جائز ہوگا کہ عثمان بزدار اس وقت تمام محاذوں پر ڈٹ کر کھڑے ہیں اور یہی عوام کی ضرورت ہے


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔