08 جنوری ، 2022
انصاف ہوا اور نہ حتمی فیصلہ، پارٹی فنڈنگ کیس سے متعلق اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کی صورت میں بس بھیانک حقائق سے متعلق ایک ہلکی سی جھلک نظر آئی ہے اور ایک ہلکی سے امید پیدا ہوئی ہے کہ شاید لاڈلی تحریک انصاف کے معاملے میں بھی کبھی انصاف ہو۔
پارٹی فنڈنگ کیس سے متعلق الیکشن کمیشن کا رویہ خود اس کے اپاہج ہونے کی ایک واضح دلیل ہے ، کیونکہ یہ کیس 2014سے چل رہا ہے۔ آٹھ سال ہوگئے۔ سینکڑوں سماعتیں ہوئیں۔ اکبر ایس بابر نے ہزاروں دستاویزات پیش کیں لیکن اب بھی فیصلہ نہیں ہوا بلکہ صرف اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ سامنے آئی۔
اس رپورٹ سے واضح ہوگیا کہ ہر کسی کی تلاشی لینے والے اپنی تلاشی دینے کو تیار نہیں ۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان (جس کے سربراہ عمران خان کے نامزد کردہ رضا باقر ہیں) کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق تحریک انصاف نے درجنوں اکائونٹس ظاہر نہیں کیے اور مغربی ممالک میں کمپنیاں بنا کر فنڈز لئے ۔وغیرہ وغیرہ ۔ میں اسے بھیانک حقائق کی ایک ہلکی سی جھلک اس لئے قرار دے رہا ہوں کہ یہ کسی غیرجانبدار عدالت کا فیصلہ یا رپورٹ نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کو ایک تنہا شخص یعنی اکبر ایس بابر کے اصرار پرسرکاری اداروں کے فراہم کردہ حقائق ہیں۔خودالیکشن کمیشن کی کمیٹی کہہ رہی ہے کہ اسے مکمل معلومات تک رسائی میں ناکامی ہوئی ہے۔
دوسری بات یہ مدنظر رکھنی چاہئے کہ یہ کیس کسی مخالف پارٹی نے شروع نہیں کیا تھا بلکہ اکبر ایس بابر جو پارٹی کے بانی ممبر اور لمبے عرصے تک عمران خان کے دست راست تھے اور پورے سات سال تک پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات تھے ، نےیہ ایشواس وقت(2011) اٹھایا جب وہ پارٹی کے اندر تھے ۔ پہلے انہوں نے یہ ایشو عمران خان کے ساتھ خلوتوں میں اٹھایا۔ جب شنوائی نہیں ہوئی تو انہوں نے ای میلز کے ذریعے عمران خان سے لمبے عرصے تک مکالمہ کیا لیکن جب غیرقانونی طریقے سے فنڈز جمع کرنے اورخوردبرد کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی بجائے عمران خان ان سے ناراض ہوئے تو مجبوراً وہ اسے الیکشن کمیشن میں لے آئے۔
ان آٹھ برسوں میں پی ٹی آئی اور اس کے سرپرستوں نے اکبر ایس بابر کے خلاف ہر حربہ استعمال کیا۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ان کی کردار کشی کی گئی۔ انہیں دھمکیاں دی جاتی رہیں۔ ان کی والدہ کئی سال سے بستر مرگ پر پڑی تھیں اور اس عظیم ماں کو بھی تڑپایا گیا۔ کئی مرتبہ مختلف طریقوں سے رابطہ کرکے انہیں عہدوں کی پیشکشیں بھی ہوئیں لیکن اکبر ایس بابر ڈٹے رہے ۔اسی طرح اکبر ایس بابرکے پیچھے کوئی اور جماعت بھی کھڑی نہیں تھی ۔ وہ اب بھی پی ٹی آئی کے ممبر ہیں اور حکمران جماعت بننے کے بعد تو پی ٹی آئی اور اس کے سرپرستوں نے ان کا جینا حرام کیا تھا۔
ایک اور حقیقت یہ پیش نظر رکھنی چاہئے کہ اسکروٹنی کمیٹی نے صرف فنڈز جمع کرنے کے معاملے کی چھان بین کی ہے جس میں اس حد تک گھپلے نکل آئے ہیں اور یہ پتہ چلا ہے کہ نہ صرف بڑی رقم الیکشن کمیشن کے سامنے ظاہر نہیں کی گئی بلکہ کئی اکائونٹس بھی چھپائے گئے۔ لیکن یہ بات تو زیرغور یا زیرتفتیش ہی نہیں آئی کہ وہ فنڈز کس نے اور کہاں خرچ کئے ؟ جب اس کی تحقیقات ہوں گی اور ان شا اللّٰہ ضرور کسی نہ کسی دن ہوں گی تو بڑے بڑے پردہ نشینوں کے نام سامنے آئیں گے اور پتہ چلے گا کہ پی ٹی آئی کے کس کس رہنما نے اس رقم سے کیسی جائیدادیں خریدیں اور کاروبار شروع کروائے۔
ایک اور حقیقت یہ مدنظر رہے کہ یہ رپورٹ 2008سے 2013 تک کے دور کا احاطہ کرتی ہےحالانکہ پی ٹی آئی کا اصل کھیل تو 2013کے بعد شروع ہوا ۔ عارف نقوی، زلفی بخاری ، انیل مسرت جیسے مشکوک کرداروں کا کردار تو اس کے بعد نمایاں ہوگیا۔جہانگیر ترین اور علیم خان جیسے اے ٹی ایمز تو اس کے بعد متحرک ہوئے۔مختلف مافیاز جو اس وقت تبدیلی سرکار چلارہی ہیں، 2014کے بعد عمران خان کے گرد جمع ہونے لگیں۔ محسن بیگ اپنے ہاتھوں سے جو ارب روپے دینے کی بات کررہے ہیں، وہ اس کے بعد کے معاملات ہیں۔
دھرنوں میں کیا ہوا؟ دھرنوں کے لئے کتنی رقم کہاں سے آئی اور کیسے خرچ ہوئی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ 2018کے الیکشن کے لئے بیرون ملک اور اندرون ملک سے کتنی رقم ، کس طریقے سے آئی، اس کا تو نہ اس رپورٹ میں ذکر ہے اور نہ الیکشن کمیشن میں زیرسماعت کیس اس دور کا احاطہ کرتا ہے ۔ یہ رپورٹ توصرف پی ٹی آئی کے بُرے دنوں یعنی 2008سے 2013تک کے دور سے متعلق ہے ۔ اس رپورٹ میں ابراج گروپ کے عارف نقوی کے کردار کا بھی ذکر ہے جو برطانیہ میں فراڈ کے جرم میں گرفتار ہوئے۔لیکن ان کے اس کردار کا ذکر نہیں کہ کس طرح وہ 2019تک عمران خان سے منسلک رہے۔ حکومت بننے کے بعد وزیراعظم ہائوس میں نظر آتے رہے اور کس طرح سرکاری سطح پر ان کی کمپنی کو چین کے حوالے کرنے کی کوششیں ہوئیں۔
یہ معاملات کتنے گہرے ہیں اور کس کس طرح کے لوگوں کے ساتھ کس کس طرح کے درپردہ روابط خود عمران خان نے استوار کئے تھے، اس کا اندازہ ریحام خان صاحبہ کی کتاب میں عارف نقوی سے متعلق اس اقتباس سے لگایا جاسکتاہے ۔”مسز عمران چوہدری گاڑی میں مجھے لینے پہنچ گئی۔ مجھے بتایا گیا کہ ہم مسز عارف نقوی کے گھر جا رہے ہیں,میں امیر ترین خلیجی تارکین وطن کے پر تعیش رہائشی علاقے EmiratesHill پہنچ گئی۔ گاڑی پارکنگ میں پہنچی تو سفید وردی میں ملبوس ملازم نے دروازہ کھولا ہم لائونج میں بیٹھ کر مسز نقوی کا انتظار کر رہے تھے۔ اس ملاقات کا واحد مقصد مسز عمران خان کا ایک انتہائی مصروف خاتون کو عزت بخشنا تھا جو 2013کے الیکشن میں عمران کی بُری کارکردگی سے بہت مایوس ہوئی تھی۔ خاتون نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’ہمیں بڑی امیدیں تھیں۔‘‘اس کے بعد ایک شدید پوچھ گچھ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ پشتونوں اور طالبانائزیشن کے بارے میں سوالات اور ڈائیلاگ بمقابلہ کارروائی پر بحث۔ یہ خاتون کے پی میں انتہا پسندی کے بارے میں میرے خیالات جاننا چاہتی تھیں۔
میں نے اپنے بھرپور پرجوش انداز میں پشتونوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ صرف ہمارے مذہب پر عمل کرنے کی وجہ سے ہم پر انتہا پسندوں کا لیبل نہیں لگانا چاہیے۔ میں نے وہ سب باتیں کہیں جن پر میں یقین رکھتی تھی، اور (اس وقت تک) سمجھتی تھی کہ میرے شوہر بھی یہی نظریات رکھتے ہیں۔ یہ ان کا عوامی موقف تھا۔ اس نے ہر ایک نکتے پر بحث کی اور میں نے دلیل اور ثبوت کے ساتھ جوابات دیے۔ مسز نقوی کی فلائٹ تھی تو ہم نے انہیں الوداع کہا۔ مسز عمران چوہدری نے بھی واپسی پر زیادہ کچھ نہیں کہا۔ میں ہوٹل کے کمرے میں واپس آگئی۔ عمران انتظار کر رہا تھا اور اس نے فوراً پوچھا کیسی رہی ملاقات؟
میں نے طنزیہ انداز میں کہا، ’’مجھے نہیں معلوم میرے خیال میں مجھے کسی ملکہ کے ساتھ بات چیت کے لیے بلایا گیا تھا۔‘‘ وہ تحمل سے مسکرایا اور سنجیدگی سے بولا، ’’بے بی، وہ بہت اہم ہیں۔عارف نقوی نے 2013 کےالیکشن میں میری الیکشن مہم کے اخراجات کا 66 فی صد حصہ فراہم کیا۔‘‘ (ریحام خان کی کتاب صفحہ 367)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔