بلاگ
Time 09 جنوری ، 2022

چوری پکڑی گئی، سیاست گرم ہوگئی

الیکشن کمیشن کی اسکروٹنی کمیٹی کی نامکمل رپورٹ میں ایسے خوفناک حقائق سامنے آئے ہیں کہ تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین عمران خان کے قانونی مستقبل پر نہایت سنجیدہ سوالات اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ 

55 اکائونٹس چھپائے گئے، صرف 12ظاہر کیے گئے۔ وصول شدہ رقم اور ظاہر کردہ فنڈز میں 31 کروڑ روپے کا فرق ہے، بیرونی فنڈز اور کھاتوں تک رسائی نہیں دی گئی، آڈٹ رپورٹس ناقص پائی گئیں، آمدن و اخراجات کے تخمینوں میں بُعد پایا گیا، ذاتی ملازمین کے کھاتے علیحدہ ہیں۔ ابھی مزید تحقیقات باقی ہیں اور جانے فنڈ چوری کا کھرا کہاں جاکے رُکے، مقدمے کو 7 سال لگے، اسکروٹنی کمیٹی نے تین برس لیے، 150 پیشیاں ہوئیں اور گند ابھی پوری طرح سامنے نہیں آیا۔

 ایک طرح سے تحریکِ انصاف اور اس کے قائد کی دیانت و امانت کے ڈھول کا پول کھل گیا ہے اور اخلاقی دیوالیہ نکل گیا ہے۔ چور چور کا شور مچانے والے اپنے ہی گھر کے نقب زن کے طور پر بے نقاب ہوگئے۔ پہلے تحریک انصاف کے الیکشن کمشنر جسٹس وجیہہ الدین کی پارٹی کے انتخابات میں دھاندلی کی رپورٹ پہ شریف النفس جج فارغ کردئیے گئے تھے، اب کپتان کرے بھی تو کیا فنڈز کی چوری دن دیہاڑے پکڑی گئی ہے۔ 

جتنا یہ کیس طول پکڑے گا، اتنا ہی گند اور اُچھلے گا۔ خاص طور پر غیر ملکی فنڈنگ کے حوالے سے تو پولیٹکل پارٹیز ایکٹ 2002 بہت کڑا ہے، تحریک انصاف پر پابندی بھی لگ سکتی ہے اور اس کے چیئرمین کے دستخطوں سے جمع کرائے گئے، اقرار نامے غلط پائے گئے ہیں اور انہیں صادق و امین قرار دئیے جانے کا فیصلہ اُلٹ سکتا ہے۔ 

لوگوں نے بے پناہ چندہ دینے میں جس اندھے اعتماد کا اظہار کیا تھا وہ اب چکنا چور ہوچکا ہے۔ اب الیکشن کمیشن مقدمہ چلائے گا یا مزید تفتیش کے لیے کوئی تحقیقاتی ادارہ مقرر کرے گا یا پھر فرانزک آڈٹ کرائے گا، تحریک انصاف پہ بجلی تو گرنی ہی گرنی ہے۔ البتہ مقدمے کو اگلے انتخابات سے بہت آگے تک طوالت ضرور دی جاسکتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ ہی کی بنیاد پر الیکشن کمیشن دونوں فریقین سے مزید وضاحتیں طلب کر کے جلد فیصلہ سنادے۔ 

ایسی صورت میں کوئی بھی انتخابی امیدوار اپنا سیاسی مستقبل ایک ایسی جماعت پر دائو پہ کیوں لگائے گا جس کا اپنا قانونی مستقبل مشکوک ہوگیا ہے۔الیکشن کمیشن کو وزرا کی دھمکیاں اور اس پر دبائو ڈالنے کی مہم کے پیچھے حکومت کا یہ خوف تھا کہ فارن فنڈنگ کیس کی تحقیقاتی رپورٹ تیاری کے آخری مرحلے میں تھی۔ اوپر سے وزیراعظم کی آمدنی میں سال بھر میں اتنا اضافہ ہوا ہے کہ ان کا ٹیکس ڈھائی لاکھ روپے سے چھلانگ مار کر تقریباًایک کروڑ روپے تک پہنچ گیا ہے۔ وزیراعظم بھی آئندہ تین ماہ کو اہم قرار دے رہے ہیں اور اپوزیشن بھی کسی سیاسی دھماکے کی منتظر ہے یا پھر خود کوئی بڑا دھماکہ کرنے کے لیے پر تول رہی ہے۔

 ایسے میں کوئی کیوں کسی سے ڈیل کرے گا جبکہ حالات سیاسی پردہ گرنے کی طرف دوڑے چلے جارہے ہیں۔ اور اس کی وضاحت ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر نے اپنے بیان میں واشگاف کردی ہے اور وزیراعظم کا یہ کہنا کہ اگلے آرمی چیف کی تعیناتی یا موجودہ کی ایکسٹینشن کے بارے میں ابھی سوچا نہیں کہ نومبر ابھی بہت دور ہے۔

اب جبکہ ضروری اشیاء کی مہنگائی 20 فیصد سے اوپر جاچکی ہے اور ملک بھر میں لوگ بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ کے ہاتھوں چلارہے ہیں، اپوزیشن نے بھی کمر کس لی ہے۔ سوموار سے شروع ہونے والا قومی اسمبلی کا اجلاس ہنگامہ خیز رہے گا۔ 

منی بجٹ پاس نہ ہوا تو حکومت تو گر جائے گی، لیکن ملک بدترین معاشی و مالیاتی بحران کی لپیٹ میں آجائے گا جسے سنبھالنے کی اپوزیشن میں سکت ہے نہ ریاست اور اس کے ادارے اس کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ ہر دو صورتوں میں بحران ہے کہ بڑھتا چلا جائے گا۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے 27 فروری سے کراچی تا اسلام آباد لانگ مارچ کا اعلان کر کے بڑا سیاسی فیصلہ کیا ہے اور ان کی حریف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ششدر ہوکے رہ گئی ہے۔ 

پی ڈی ایم کا 23مارچ کو لانگ مارچ کا اعلان دھرے کا دھرا رہ گیا ہے۔ ویسے بھی مقامی حکومتوں کے انتخابات کے پیش نظر اس کے مقدر میں ملتوی ہونا ہی لکھا ہوا تھا۔ پی ڈی ایم استعفوں اور دھرنے کی راہ سے نظام کے اندر رہ کر اپنی سیاسی بساط کو وسعت دینے کی جانب مراجعت کرگئی ہے اور اسے پختونخوا اور ضمنی انتخابات میں بڑی کامیابیاں ملی ہیں۔ اور یہی بلاول بھٹو کا مولانا فضل الرحمٰن اور میاں نواز شریف سے اختلاف تھا۔ 

اب اسٹریٹ ایجی ٹیشن کی سیاست میں بلاول بھٹو نے پہل کی ہےجس کے نتیجے میں حکومت جاتی ہے یا نہیں، لیکن پیپلزپارٹی کو ملک بھر میں رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کا موقع ملے گا۔ غالباً محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی پھر سے عوامی جدوجہد کے راستے پہ واپس آگئی ہے اور اسے آئندہ انتخابات سے پہلے بڑے پیمانے پہ سیاسی موبیلائزیشن کا موقع ملے گا۔ 

پیپلزپارٹی کے سیاسی مستقبل کا دارومدار اسی پر ہے کہ تحریکِ انصاف اس کے لیےکتنی جگہ چھوڑتی ہے اور پیپلزپارٹی اپنی کھوئی ہوئی حمایت کو کتنا واپس حاصل کرتی ہے۔ شاید پی ڈی ایم کو بھی اپنے لانگ مارچ کی تاریخ فروری کے آخر تک آگے لانی پڑے گی۔ بہتر ہوگا کہ پی ڈی ایم پھر سے متحد ہوجائے، تنظیمی طور پر نہیں تو عملی طور پر ایسا ہوسکتا ہے۔

صورت حال واقعی بہت بپھر گئی ہے۔ وقت اور طریقہ کار غیر معمولی اہمیت اختیار کرگیاہے۔ بلاول بھٹو نے اچھا وقت چنا ہے، پی ڈی ایم بھی ویسے ہی کرسکتی ہے، لیکن اپوزیشن کے دونوں دھڑوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ آئینی و قانونی اور جمہوری دائرے میں رہے۔ 

ذرا سا تجاوز جمہوریت اور سیاست کو بہا لے جاسکتا ہے اور چوتھے انتخابات کا انعقاد اور چوتھی اسمبلیوں کا قیام جانے کتنے عرصے کے لیے ملتوی ہو جائے۔ میری ذاتی رائے تو یہ رہی ہے کہ عمران حکومت کو مدت پوری کرنے دی جائے اور جمہوریت کی واپسی کے بعد قائم ہونے والی تیسری پارلیمنٹ اپنا دورانیہ پورا کرے۔ 

لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ تحریک انصاف اور وزیراعظم عمران خان جس تیزی سے اپنی سیاسی ساکھ اور جڑیں اکھاڑ رہے ہیں، اس کے پیش نظر سیاسی طوفان وقت سے پہلے ہی پھوٹ سکتا ہے۔ غالباً، اپوزیشن کی توقعات سے پہلے ہی وقت قریب آگیا ہے۔ اور وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔