بلاگ
Time 09 جنوری ، 2022

ہمیں تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

خبریں تو یہی ہیں کہ بلاول بھٹو فروری کے آخری ہفتے سے احتجاجی تحریک کا آغاز کررہے ہیں۔ باقی اپوزیشن بھی مارچ میں ایسا کچھ کرے گی مگر پی پی پی کے ساتھ مل کر نہیں۔ یہ خبریں مجھے ایسا لگتا ہے کہ کچھ سال پہلے بھی سن چکا ہوں بلکہ ہر سال کے اختتام پر سنتا آرہا ہوں۔ بیخود دہلوی یاد آرہے ہیں جنہوں نے کہا تھا:

سودائے عشق اور ہے وحشت کچھ اور شے

مجنوں کا کوئی دوست فسانہ نگار تھا

بے شک اپوزیشن کی آہ و بکا تو مسلسل سنائی دیتی رہی ہے،مگر یہ سینہ کوبی میڈیا تک ہی محدود رہی۔ وہاں یہی شور وغل رہا کہ فلاں اینکر ہمارے خلاف ہے اور فلاں کو نکال دیا گیا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ شکایات کے کچھ جلسے بھی ہوئے مگراحتجاج کی لے زیادہ بلند نہیں تھی۔ کچھ فریاد کی لے جیسی تھی رفتہ رفتہ وہ بھی دم توڑ تی جاتی ہے۔ایسا لگتا ہے اپوزیشن کی تمام سیاست کا دار ومدار ’’مہنگائی ‘‘ پر ہے۔سوچتا ہوں اگر حکومت مہنگائی کا حل نکالنے میں کامیاب ہو گئی تو پھر اپوزیشن کیا کرے گی۔ پرانے زمانے میں تو اپوزیشن کا رویہ مجنون مثال ہوا کرتا تھا۔ان کا ہر عمل چیخ چیخ کر کہہ رہا ہوتا تھا:

فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا

یا اپنا گریباں چاک یا دامن ِ ’’یزداں ‘‘چاک

مگر موجود اپوزیشن تو کسی موم کی دیوار سے بھی سر ٹکرانے پر تیار نہیں۔ میں نےاپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ایک دوست سے پوچھا :ابھی تک اپوزیشن اتنی سہمی سہمی کیوں ہے تو کہنے لگا۔نہیں ایسی کوئی بات نہیں، دراصل حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ابھی ایک صفحے پر ہیں۔ یعنی اپوزیشن اسٹیبلشمنٹ کی تھپکی کے بغیر کوئی قدم اٹھانے پر تیار نہیں۔ کچھ لوگ حرکت میں ہیں۔ وہ شاید کسی نئی قوت کی تشکیل کے متمنی ہیں۔ پیر پگاڑا سے جہانگیر ترین کی غیر علانیہ ملاقات یا ان کی خواجہ سعد رفیق کی بیٹی کی شادی میں شرکت کے مستقبل شناس جو بھی مفہوم نکالیں مگر وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ جہانگیر ترین کے سیاسی جہاز کی اڑان میں پہلی سی گرمی موجود نہیں۔ وہ جہاز کسی اورکے دم قدم سے بلندیوں پر پرواز کیا کرتا تھا۔کسی شاعر نےکہا تھا:

اونچی اڑان کے لیے پر تولتے تو تھے

اونچائیوں پہ سانس گھٹے گی پتا نہ تھا

بے شک اپوزیشن میں کئی ایسے لوگ موجود ہیں جن سے اسٹیبلشمنٹ کو کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ وہ بڑے خدمت گزار اور وفا دار لوگ ہیں مگر ابھی تک اسٹیبلشمنٹ کا پہلا عشق کامیاب جارہا ہے۔ اسے کسی نئے عشق کی کیا ضرورت ہے مگر وہ بیچارے لوگ بھی انتظار کے سوا کچھ اور نہیں کر سکتے۔ یہی سوچتے رہتے ہیں:

کریں گے کیا جو محبت میں ہو گئے ناکام

ہمیں تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

دوسری طرف عمران خان کو پریشانی یہ ہے کہ اتنے برسوں کی لوٹ مار کاکوئی مداوا کیوں نہیں ہو سکا۔ ظلمت ِ شب نے کچھ ایسی گرہ لگا رکھی ہے کہ ناخن اکھڑ گئے ہیں اسے کھولتے ہوئے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس صحرا کو عبور کئے بغیر میٹھے پانیوں تک رسائی کاکوئی امکان نہیں۔ پھر عمران خان کی ساری جدوجہداسی نقطے کے اردگرد گھومتی ہے۔عمران خان بڑی کرپشن کو روکنے میں کامیاب بھی ہوئے ہیں مگرچھوٹی سطح پر کرپشن کے معاملات کہیں کہیں دکھائی دیتے ہیں۔ مجموعی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ اگر آئندہ انتخابات سے پہلے پہلے موجودہ حکومت مہنگائی کنٹرول کرنے میں کامیاب ہو گئی تو اپوزیشن کےلیے اپوزیشن میں رہنے کے سوا کوئی چارہ گر نہیں ہو گا۔

آئندہ انتخابات کی سب سے اہم ترین بات یہ ہے کہ وہ الیکشن صرف پارٹیاں جیت سکیں گی۔ انفرادی طور پر ایم این اے بننے کا جو مزاج پاکستانی سیاست میں در آیا تھا وہ تقریباً تقریباً ختم ہونے والا ہے۔ پی ٹی آئی کے مقابلہ میں نون لیگ ہو گی یا پی پی پی۔ اپنے ووٹ بینک کے اعتبار سے یہ دونوں صوبائی پارٹیاں ہیں پیپلز پارٹی سندھ میں طاقتور ہے اور نون لیگ پنجاب میں۔ اگر یہ دونوں پارٹیاں مل کر الیکشن لڑتی ہیں اور مولانا فضل الرحمٰن بھی ان کے اتحادی ہوتے ہیں تو یہ یقیناً پی ٹی آئی کےلیے الارمنگ سچویشن ہوگی مگر اس اتحاد کا امکان بہت کم ہے۔ جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کی بات ہے تو وہ کسی حدتک پیپلز پارٹی کے ساتھ چل سکتی ہے مگرپنجاب میں اس کےلیے ابھی تک نون لیگ قابلِ قبول نہیں۔

یہ باتیں ابھی کرنے کی نہیں ہیں۔ ویسے بھی پاکستانی سیاست کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔ وہ کسی وقت بھی کوئی ایسا موڑ مڑ جاتی ہے کہ جس کا کسی نے تصور بھی نہیں کیا ہوتا۔ نواز شریف کی سعودیہ جلاوطنی اور بے نظیر بھٹو کی شہادت پاکستانی تاریخ کے ایسے ہی واقعات ہیں جنہوں نے پاکستانی سیاست کی شکل ہی بدل دی۔

بے شک خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج سے اپوزیشن کو ایک امید کی کرن نظر آئی مگر حقیقت میں یہ نتائج حکمران جماعت کی آنکھیں کھولنے کےلیے کافی ثابت ہوئے۔ عمران خان نےبڑی گہرائی میں جا کر ان نتائج پر غور کیا اور یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ اس کی وجہ صرف آپس کی لڑائیاں تھیں۔ غلط امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ دینا تھا یا کچھ اور بھی تھا۔ ان کے تجزیے میں تینوں چیز آئیں اور وہ اس وقت پوری طرح اس بات پر غو رکر رہے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں ان تینوں چیزوں سے کیسے نبرد آزما ہونا ہے بلکہ وہ پنجاب میں بھی بلدیاتی انتخابات کرانے پر بضد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات ضرور ہوں گے۔ چاہے ان کا نتیجہ کچھ بھی ہو۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔