پاکستان
Time 11 جنوری ، 2022

امریکا میں پاکستانی ڈاکٹر کا شاندار کارنامہ، انسان میں خنزیر کا دل لگادیا

امریکا میں پاکستان کے ڈاکٹر منصور محی الدین نے میڈیکل سائنس کی دنیا میں  شاندار کارنامہ انجام دیتے ہوئے مریض میں کامیابی سے خنزیر کا دل لگادیا۔

دل کی تبدیلی کے لیے کسی انسان کا انتظار کرنے کی ضروت ختم ہوگئی اور پہلی بار ثابت ہوا کہ انسان کسی جانور کے دل کے ساتھ بھی زندہ رہ سکتا ہے۔

یونیورسٹی آف میری لینڈ میڈیکل اسکول کے مطابق ایک مریض میں کامیابی سے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ خنزیر کا دل لگایا گیا جس کے بعد امریکا سے تعلق رکھنے والے 57 سالہ ڈیوڈ بینیٹ دنیا کے پہلے انسان بن گئے ہیں جن میں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ خنزیر کا دل لگایا گیا ہے۔

فوٹو بشکریہ یونیورسٹی آف میری لینڈ اسکول
فوٹو بشکریہ یونیورسٹی آف میری لینڈ اسکول

امریکا میں یہ کارنامہ کراچی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر منصور محی الدین نے انجام دیا جو ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز سے گریجویٹ ہیں۔

ڈاکٹر منصور کی جیونیوز سے خصوصی گفتگو

جیونیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر منصور نے کہا کہ ’ابتدائی تجربات میں بندر کا دل لگایا جاتا تھا لیکن وہ مفید ثابت نہ ہوا البتہ خنزیر پر تجربہ مفید رہا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم نے سارے جانوروں کا معائنہ کیا کہ کونسا جانور انسان کے قریب ہے، شروع میں بندروں کا دل لگایا گیا تو وہ اتنا مفید ثابت نہیں ہوا، چند مہینوں کے خنزیر کا دل بڑے انسان کے دل کے برابر کے سائز پر آجاتا ہے، اس کے علاوہ بھی کچھ وجوہات ہیں جس بنا پر ہم نے تمام ریسرچ خنزیر پرکی‘۔

فوٹو بشکریہ یونیورسٹی آف میری لینڈ اسکول
فوٹو بشکریہ یونیورسٹی آف میری لینڈ اسکول

مریض میں خنزیر کے دل کے ٹرانسپلانٹ پر ایک کروڑ 75 لاکھ پاکستانی روپے لاگت آئی۔

اس حوالے سے ڈاکٹر منصور کا کہنا تھا کہ ’ابتدائی تجربے کی وجہ سے لاگت زیادہ ہے لیکن ٹرانسپلانٹ میں فکر کرنے کی زیادہ ضرورت نہیں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’جس مریض میں دل لگایا وہ بہت بیمار تھا، سوائے اس کے ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں تھا، اس معاملے پر مریض اور اس کے دل کو مسلسل مانیٹر کرنا پڑتا ہے، خیال رکھنا پڑتا ہے کہ ہم نے مریض کو نیا دل دیا ہے لیکن کیا باقی جسم بھی اس چیز  کو قبول کرے گا‘۔

مریض کی گفتگو

دوسری جانب بی بی سی کے مطابق مریض نے اپنے آپریشن سے پہلے گفتگو میں کہا تھا کہ انہیں پتا ہے یہ اندھیرے میں تیر چلانے کے مترادف ہے مگر ان کے لیے یہ آخری چوائس تھی کہ موت کو قبول کریں یا پھر ٹرانسپلانٹ کرائیں۔

مزید خبریں :