11 جنوری ، 2022
سپریم کورٹ میں ججوں اوربیوروکریٹس کو پلاٹس کی الاٹمنٹ غیر قانونی قرار دینے کے فیصلے کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جج اپنے فیصلوں سے بولتے ہیں، میڈیا اپنی ذمہ داریوں سے ہم آہنگ، غلط بیانیاں کرنے والے خودبخود سائیڈ پر ہوجاتے ہیں۔
سپریم کورٹ میں ججز اوربیوروکریٹس کو پلاٹ الاٹمنٹ غیرقانونی قرار دینے کے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کےخلاف درخواستوں پرسماعت جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی بینچ نے کی۔
وکیل فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ سوسائٹی اکرم شیخ نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم سے خبر اخباروں کی زینت بنی کہ تمام ججزپلاٹس حاصل کرنے والے بینیفشریز ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کو اپنے اختیارات سے تجاوزکرتے ہوئے، اعلیٰ عدلیہ کے وقارپرانگلیاں نہیں اٹھانی چاہیئیں، ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو محتاط ہونا چاہیے، سابق جج پرتوہین عدالت کرنے والے جج کوخود پاک ہونا چاہیے۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہاکہ آپ کے کہنے سے تاثرمل رہا ہے کہ میڈیا نے فیصلہ ایسے پیش کیاکہ پوری عدلیہ لپیٹ میں آئی؟
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ججز اپنے فیصلوں سے بولتے ہیں، میڈیا اپنی ذمہ داریوں سے ہم آہنگ، غلط بیانیاں کرنے والےخودبخود سائیڈ پر ہوجاتے ہیں، ہائیکورٹ نے بیان حلفی پرنوٹس تو اس لیے لیا کہ ان کے اپنے جج کا اس میں ذکرتھا۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ ججز وفاق کے ملازم نہیں ہیں، صرف یہ بتادیں کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم میں کیا غلط ہے؟ اسلام آباد ہائیکورٹ میں انٹراکورٹ اپیل کا فیصلہ محفوظ ہے، جب وفاقی حکومت نے نئی پالیسی بنادی ہے تو آپ کو کیا مسئلہ ہے؟
وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ ہائیکورٹ کے فیصلے سے فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائزہاؤسنگ اتھارٹی غیرفعال ہوگئی۔
سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی نئی الاٹمنٹ پالیسی طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت غیرمعینہ مدت کیلئے ملتوی کر دی۔