Time 17 جنوری ، 2022
بلاگ

عدت کے اندر نکاح

’’ایک شخص امیر بخش کی بیوی نے عدالت سے خلع حاصل کی اور اُس سے اگلے روز دوسرے شخص اسماعیل سے نکاح کر لیا، اس پر سابق شوہر امیر بخش نے اپنی سابقہ بیوی اور اسماعیل پر زنا کا مقدمہ دائر کیا کہ ان دونوں نے عدت کے اندر نکاح کیا ہے جو شریعت کی رو سے ممنوع ہے۔ 

لاہور ہائی کورٹ ملتان بنچ کے جسٹس علی ضیا باجوہ نے اپنے فیصلہ میں قرار دیا کہ یہ نکاح باطل نہیں ہے، بے قاعدہ ہے اور اس بنا پر انہوں نے مدعی کے مقدمے کو خارج کر دیا، اس بارے میں شریعت کا حکم کیا ہے؟‘‘ حال ہی میں قومی اخبارات میں اس بارے میں خبر شائع ہونے پر یہ سوال محترم مفتی منیب الرحمان سے کسی شہری نے پوچھا جس پر اُنہوں نے تفصیلاً کوئی چھ صفحات کا فتوی جاری کیا۔مفتی صاحب نے قرآن و سنت کا حوالے دیتے ہوے کہا کہ جو عورت طلاق، خلع یا وفات کی عدت گزار رہی ہے، اس کے لیے عدت پوری ہونے سے پہلے کسی اجنبی شخص سے نکاح کرنا شریعت کی روح سے حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔ 

طلاق و وفات کی عدت گزارنا لازم اور فرض ہے اور جب عدت پوری ہو جائے تو عورت اپنی آزادانہ مرضی سے جہاں چاہے نکاح کر سکتی ہے۔ مفتی منیب کے فتوی کے مطابق اگر جانتے بوجھتے اور حرمت کا علم ہونے کے باوجود عدت کے اندر نکاح ہوا تو یہ نکاح باطل اور سرے سے منعقد ہی نہیں ہوا اور بعض اہل علم کے بقول ایسے شخص پر حد زنا جاری کی جائے گی۔ اور اگر نکاح کی حرمت کا علم نہ ہو تو نکاح فاسد طور پر منعقد ہو جائے گا، لیکن دونوں صورتوں میں زوجین پر فوراً علیحدگی اور فرقت اختیار کرنا لازم و فرض ہے۔

 مفتی صاحب یہ بھی لکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص معتدہ سے نکاح کا علم ہونے کے باوجود اس فعل حرام کا ارتکاب کرتا ہے تو اسلامی حکومت اس کو تعزیراً سزا دے سکتی ہے اور یہ قاضی کے صوابدید پر ہے۔ مفتی صاحب کے مطابق چاروں فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ جس نے کسی عورت سے نکاح کیا، جو کسی اور کی عدت میں تھی، تو نکاح فاسد ہے۔ اسلامی حوالوں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد مفتی منیب الرحمن صاحب لکھتے ہیں:

’’خلاصہ یہ کہ عدالتِ عالیہ کا فیصلہ اس حد تک درست ہے کہ مذکورہ کیس میں مرد اور عورت دونوں پر زنا کی حد واجب نہیں ہو گی، لیکن شریعت کی رو سے یہ فیصلہ ناقص اور نامکمل ہے، عدالت پر لازم تھا کہ فوراً ان دونوں کے درمیان تفریق کر دیتی اور ان دونوں کو تعزیراً کوئی نہ کوئی سزا دی جاتی تاکہ آئندہ لوگوں کو ایسے فعلِ حرام کے ارتکاب پر تنبیہ ہو اور سب کے علم میں یہ بات آ جائے۔ اس کے برعکس عدالت نے ان کے ناجائز نکاح کو محض ’بے قاعدہ‘ کہہ کر رشتہ ازدواج کو جاری رکھا، یہ شریعت کی رو سے درست نہیں ہے، کیوں کہ عدت کے دوران علم کے باوجود نکاح اصلاً منعقد نہیں ہوا، پس عدالت کو اپنے فیصلہ پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔‘‘

میں نے جب اخبار میں یہ خبر پڑھی تو سوچا کہ عدالت نے یہ کیسا فیصلہ کیا ہے لیکن جب مفتی منیب صاحب کا تفصیلی فتوی پڑھا تو ذہن میں یہ سوال پیدا ہواکہ ہے ہماری عدالتیں جو انگریز دور کی پیداوار ہیں وہ اسلامی اور شرعی معاملات پر کیوں ایسے فیصلے دیتی ہیں جو اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں۔ 

ایسے مقدمات خود سننے کی بجائے یا تو وفاقی شرعی عدالت کو بجھوا دیا کریں یا شرعی نوعیت کے سوالات اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیج کر رہنمائی حاصل کر لیا کریں۔ ایسا نہیں ہو گا تو ایسے ہی فیصلے ہوں گے، جن سے اسلامی احکامات کے منافی عمل کو سختی سے رد کرنے کی بجائے جائز قرار دیا جاتا رہے گا جو اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک اور مسلمانوں کے معاشرہ میں خربیاں پیدا کرنے کا تو سبب بن سکتا ہے لیکن ایسے فیصلوں سے کوئی بھلائی اور خیر برآمد نہیں ہو سکتی بلکہ معاشرہ گناہ کی طرف گامزن ہو گا ۔ میری چیف جسٹس پاکستان اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے درخواست ہے کہ اس معاملہ کا فوری نوٹس لیں۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔