22 جنوری ، 2022
صدارتی نظام؟ سوشل میڈیا پہ چھوڑا جانے والا یہ شوشہ اب رائے عامہ کی ہمواری اور ذہن سازی کے مرحلے تک پہنچ چکا ہے۔ ایک چینل پر صدارتی نظام کے حق میں چلتا اشتہار اور اس کے ذیل میں کسی ویب سائٹ کا ایڈریس۔
پچھلے دو ہفتوں میں سوشل میڈیا پر صدارتی نظام کی افادیت کے حق میں دلائل اور ایسے کسی نظام کے غیر موثر ہونے اور اسے آئین پاکستان سے متصادم قرار دے کر ماضی کے تجربات سے رددلائل پیش کرنے کا سلسلہ جاری رہا اور اب یہ اشتہار سوشل میڈیا پر بحث کا مرکز ہے جس میں لوگوں کو اس نظام کے حق میں ایک ویب سائٹ پر ووٹ دے کر فیصلہ سازوں کو فیصلہ سازی میں مدد دینے کے لئے متحرک کیا جارہا ہے۔
کون ایسا چاہتا ہے ؟کیوں ایسا چاہتا ہے؟ ابھی 20 سال پہلے تو ایسا تجربہ ہوا تھا؟ جیسے بے شمار سوالات ذہنوں میں گھوم رہے ہیں۔
پچھلے تین روز میں افواہ ساز فیکٹریوں نے ایمرجنسی کا نیاشوشہ چھوڑ کر سب کو حیران کردیا، افواہیں معروف افراد کے فیک اکاؤنٹس اور غیر معروف افراد کے فرضی اکاؤنٹس سے سفر کرتی واٹس ایپ گروپوں میں زیر بحث آ گئیں، ان افواہوں کی نوعیت ہی اتنی سنگین اور حساس ہے کہ کان کھڑے کردینے کو کافی ہے۔
ایسے میں سابق وزیر داخلہ اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال نے ٹوئٹ کرتے ہوئےاشارہ دیا کہ ایمرجنسی اور نظام کی تبدیلی کے فارمولوں کی پھڑپھڑاہٹ سنی جارہی ہے۔
معاملے کی سنجیدگی کا اندازہ یوں لگائیے کہ اپوزیشن نے متحد ہوکر تمام اپوزیشن پارٹیوں کے پارلیمانی رہنماؤں کے دستخطوں سے جلدی جلدی پارلیمانی نظام کے حق میں ایک قرارداد ایوان میں جمع کروادی اور جمعہ کو ہونے والے اجلاس میں اس کے ایجنڈا میں شامل ہونے کے متمنی بھی ہیں۔
ماضی قریب میں 3 نومبر 2007 کو لگنے والی ایمرجنسی کتنی ناپائیدار ثابت ہوئی تھی یہ اس بات سے عیاں ہے کہ اس کے نتیجے میں پرویز مشرف کو اپنی 8 سالہ صدارت سے ہاتھ دھونا پڑا تھا تو پھر کیا صرف تیزی سے بدلتے معروضی حالات سے توجہ بٹانے کے لیے سادہ لوح عوام کو نئی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا جارہا ہے؟ اس کا جواب جلد آجائے گا۔
لیکن ایک بات طے ہے کہ نہ ہمارے فیصلہ ساز ہمیں ہر روز نت نیا خواب دکھانے سے باز آتے ہیں نہ ہم عوام ہر سراب کے پیچھے دوڑ لگادینے سے خود کو روک پاتے ہیں۔ ایسے میں ہمارے دوست عمیر نجمی کا یہ شعر شاید اسی صورتحال کا عکاس ہے :
سفید رومال جب کبوتر نہیں بنا تو وہ شعبدہ باز
پلٹنے والوں سے کہہ رہا تھا رکو خدا کی قسم بنے گا
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔