27 جنوری ، 2022
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے لیکن بدقسمتی سے یہ شہر بےحس سیاست کی نذر ہو چکا ہے۔ ملک کے دوسرے بڑے شہروں کے مقابلے میں جو سہولتیں کراچی والوں کو ملنی چاہیے تھی، وہ نہیں مل رہیں۔
اسلام آباد، لاہور، پشاور اور ملتان تک کو میٹرو بس مل گئی، لاہور میں تو اورنج ٹرین بھی آگئی لیکن کراچی والوں کو بڑی مشکل سے اور وہ بھی وفاقی حکومت کی مہربانی سے آدھی ادھوری گرین بس اسکیم حال ہی میں مل سکی ہے۔ مسئلہ ٹرانسپورٹ کا ہو، پانی کا، صفائی کا یا کوئی دوسرا، صوبائی حکومت کی اِن مسائل کی طرف کوئی توجہ نہیں جبکہ بلدیاتی نظام اتنا ناقص اور بے بس ہے کہ وہ بھی ناکارہ ہو چکا ہے۔
اِس سب کی وجہ سے کراچی والوں کی حالت قابلِ ترس ہے۔ پاکستان کا سب سے اہم اور بڑا شہر لیکن سیاسی کشمکش کی وجہ سے اُس کی اور وہاں کے رہنے والوں کی حالت بد سے بدتر ہو رہی ہے۔
انہی حالات کو بدلنے کے لیے جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن شہر میں گزشتہ تین چار ہفتوں سے ہزاروں شہریوں کے ساتھ ایک دھرنا دیے ہوئے ہیں جس کا مقصد بلدیاتی نظام کو اِس قابل بنانا ہے کہ کراچی شہر اور اس کے رہنے والوں کو بہترین سہولتیں میسر ہو سکیں۔ افسوس کہ صوبائی حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔ میڈیا بھی اس دھرنے اور دھرنے کے مطالبات پر کوئی خاص دلچسپی نہیں لے رہا، جو کہ قابلِ افسوس رویہ ہے۔
میری درخواست پر نعیم الرحمٰن صاحب نے مجھے دھرنے کے مطالبات بھیجے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:
1۔جماعت اسلامی کا مطالبہ ہے کہ کراچی میں دنیا کے بڑے شہروں کی طرح بااختیار شہری حکومت قائم کی جائے اور جس طرح لندن، نیویارک، پیرس، استنبول، اور تہران وغیرہ کا میئر بااختیار ہے، کراچی کا میئر بھی بااختیار ہونا چاہیے۔ :2۔پیپلز پارٹی حکومت نے کراچی کے علاوہ بقیہ سندھ میں اوسطاً 17ہزار کی آبادی پر ایک یونین کونسل بنائی ہے جبکہ کراچی میں 65 ہزار کی آبادی پر ایک یونین کونسل بنائی گئی ہے۔ رواں اخراجات کے لیے جو رقم ملتی ہے اس میں کراچی کو چھٹا ساتواں حصہ ملتا ہے۔ کراچی دھرنے والوں کا مطالبہ ہے کہ کراچی میں یونین کونسلز کی تعداد 500سے 600کے درمیان ہونی چاہیے جبکہ پیپلز پارٹی نے صرف 233یونین کونسلز بنائی ہیں جبکہ کراچی میں زیادہ یونین کونسلز ہوں گی تو گلی محلے کی سطح پر زیادہ سے زیادہ ترقیاتی کام ہوں گے۔ اس لیے کہ ہر یونین کونسل کو سالانہ کم از کم 60 لاکھ روپے ملتے ہیں جبکہ آمدنی کے دیگر ذرائع اس کے علاوہ ہوتے ہیں۔
3۔پاکستان کے باقی شہروں کی طرح کراچی کے میئر کا انتخاب بھی براہِ راست ووٹنگ سے ہونا چاہیے۔ :4۔کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا قیام 1983میں میئر کراچی عبدالستار افغانی کے دور میں عمل میں لایا تھا، یہ ادارہ سندھ حکومت نے چھین لیا۔ آخری پانی کا منصوبہ کے تھری، نعمت اللہ خان صاحب نے مکمل کیا جبکہ پچھلے سترہ سال میں کراچی کو پانی کی فراہمی میں ایک بوند پانی کا اضافہ نہیں کیا۔ واٹر بورڈ دوبارہ میئر کے تحت ہونا چاہیے۔
:5۔ دنیا کے تمام بڑے شہروں اور سابقہ شہری حکومت کی طرح ٹرانسپورٹ کا پورا نظام میئر کےماتحت ہوناچاہیے۔سندھ حکومت نے 14 سال میں صرف 10بسیں چلائی ہیں جبکہ آج کراچی کو کم از کم پانچ ہزار بسوں کی فوری ضرورت ہے۔ :6۔ کراچی میں 3ہزار سے زیادہ سرکاری اسکولز ہیں، یہ تمام سرکاری اسکولز 2001سے 2009تک پہلے سٹی حکومت کے ماتحت تھے، پھر سندھ حکومت نے یہ تمام اسکولز لے لیے اور اب کے ایم سی کے تقریباً ایک ہزار اسکولز بھی لے لیے ہیں۔ یہ تمام سرکاری اسکولز واپس کیے جائیں کیونکہ صوبائی حکومت تعلیم پر توجہ دینے میں ناکام رہی ہے۔
:7۔نئے بلدیاتی قانون 2021کے بعد پیپلز پارٹی نے میئر کراچی کے زیر کنٹرول اسپتالوں جیسے عباسی شہید اسپتال، سرفراز رفیقی اسپتال، سوبھراج اسپتال، کراچی انسٹیٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز سمیت درجن بھر اسپتال اور کے ایم سی کی لاتعداد ڈسپنسریوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ سندھ حکومت کے پاس اربوں روپے کا بجٹ ہے مگر ان اسپتالوں میں جاتے ہوئے بھی مریضوں کو خوف آتا ہے، کراچی میں سرکاری شعبے میں صحت کا نظام سندھ حکومت نے تباہ کردیا ہے۔ یہ اسپتال اور ڈسپنسریاں واپس کے ایم سی کو ملنی چاہئیں۔
8۔ایک زمانے میں کراچی میں فیڈرل بی ایریا، گلشن اقبال، نارتھ ناظم آباد، بفرزون اور نارتھ کراچی سمیت متعدد رہائشی منصوبے شروع کیے گئے جہاں لاکھوں افراد کو مناسب قیمت میں پلاٹس مل گئے، سرجانی ٹاؤن میں کم آمدنی والے لاکھوں افراد کو ٹھکانہ ملا مگر اب سندھ حکومت کے ڈی اے، ایل ڈی اے اور ایم ڈی اے پر قابض ہے۔ کراچی بلڈرز کے رحم و کرم پر ہے۔ سندھ حکومت نے کے بی سی اے کو ایس بی سی اے بنا کر قبضہ کر لیا ہے اور یہ ادارہ رشوت کا گڑھ ہے۔ کراچی میں لوگوں کا سرمایہ غیرمحفوظ ہے۔ شہری کسی پراجیکٹ میں سرمایہ لگاتے ہیں، بعد میں معلوم ہوتا ہے یہ تو غیرقانونی تھا۔ ہر بڑے شہر کی طرح ڈویلپمنٹ اتھارٹیز اور بلڈنگ کنٹرول کا نظام میئر کے ماتحت کیا جائے، 2001سے 2010تک یہ تمام اتھارٹیز اور کے بی سی شہری حکومت کا حصہ تھا۔
9۔کوآپریٹو ڈپارٹمنٹ میں اندھیر نگری چوپٹ راج ہے، سندھ حکومت نے لینڈ مافیا کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے، سوسائٹیز کے ہزاروں الاٹیز مارے مارے پھر رہے ہیں، کوئی انصاف دینے والا نہیں، نہ عدالتیں سنتی ہیں نہ سندھ حکومت۔ ان سوسائٹیز میں کراچی کے ہزاروں افراد کی جمع پونجی لگی ہوئی ہے، آئے روز احتجاج کرتے ہیں مگر لینڈ مافیاز کے خلاف کارروائی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔
:10۔آئین کے آرٹیکل 140A کے مطابق تمام شہری اداروں کو شہری حکومت کے تحت کیا جائے۔ وفاقی حکومت کا رویہ بھی کراچی کے ساتھ ناانصافی پر مبنی ہے۔ وزیراعظم نے جس 1100ارب کے پیکج کا اعلان کیا تھا اب تک 50ارب بھی کراچی پر خرچ نہیں ہوئے۔ مردم شماری میں کراچی کو آدھا گنا گیا ہے اور 3کروڑ کی آبادی کو وفاق نے 1ایک کروڑ 49لاکھ ظاہر کرکے سنگین ناانصافی کی۔ وفاق کے تحت پانی کی فراہمی کا منصوبہ کے فور، برسوں سے التوا کا شکار ہے، اب 650ملین گیلن پانی کا منصوبہ کم کرکے 250ملین گیلن کردیا گیا ہے،باقاعدہ کام کب شروع ہوگا؟ یہ بھی ایک اہم سوال ہے۔
کراچی کو روزانہ 1100ملین گیلن پانی کی ضرورت ہے اور ملتا صرف 550ملین گیلن ہے اس لیے شہر میں بدترین بحران ہے۔ گرین لائن بس منصوبہ جو ٹاور تک جانا تھا 6سال بعد بھی نامکمل ہے اور صرف نمائش تک پہنچ سکا ہے، کراچی سرکلر ریلوے اب تک خواب ہے۔ وفاق اور صوبے کی عدم توجہی نے کراچی کو مسائل کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔