بلاگ
Time 31 جنوری ، 2022

کراچی کے حالات، خبردار رہنے کی ضرورت

یہ خوش آئند بات ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے جماعت اسلامی کے مطالبات تسلیم کر لئے ہیں اور سندھ کے نئے بلدیاتی قانون میں ایسی تبدیلیاں کرنے پر رضا مندی ظاہر کی ہے ، جن کی سفارش جماعت اسلامی نے کی تھی جس پر جماعت اسلامی نے اپنا احتجاجی دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے ۔

 البتہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم ) پاکستان ، پاک سرزمین پارٹی اور مہاجر قومی موومنٹ کا نئے بلدیاتی قانون کے خلاف احتجاج جاری ہے ۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ سندھ حکومت جماعت اسلامی کے ساتھ ساتھ دیگر جماعتوں کو بھی اعتماد میں لیتی اور یہ مسئلہ مستقل طور پر حل ہو جاتا ۔ کراچی ویسے ہی سیاسی بے یقینی کا شکا رہے ۔

کچھ حلقوں کی رائے یہ ہے کہ سندھ کے نئے بلدیاتی قانون کے خلاف کراچی کی مخصوص سیاسی جماعتوں کے احتجاج میں جماعت اسلامی نے سبقت حاصل کر لی ہے۔ بلدیاتی قانون میں حکومت سندھ نے جو تبدیلیاں کرنے کا وعدہ کیا ہے ، اسے جماعت اسلامی کی فتح قرار دیا جا رہا ہے ۔ احتجاج کرنے والی دیگر سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ انہیں یہ سیاسی کریڈٹ نہیں مل سکا ۔ اس لئے ان حلقوں کی رائے میں ایم کیو ایم پاکستان ، پاک سرزمین پارٹی اور مہاجر قومی موومنٹ اس معاہدے کو تسلیم نہیں کر رہیں ، جو حکومتِ سندھ اور جماعت اسلامی کے مابین ہوا ہے ۔ 

دوسری طرف مذکورہ بالا ان سیاسی جماعتوں کا موقف یہ ہے کہ وہ بلدیاتی اداروں کے لئے اس سے زیادہ اختیارات چاہتی ہیں ، جن کا ذکر حکومتِ سندھ اور جماعت اسلامی کے معاہدے میں ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ اپنے اس ہدف کو حاصل کر سکیں گی ؟

کراچی میں سیاسی اور جمہوری استحکام کےلئے یہ امر بھی قابل ستائش ہے کہ حکومت سندھ نے نہ صرف جماعت اسلامی کے ساتھ معاہدہ کیا اور اس کے پرامن سیاسی احتجاج کو اہمیت دی بلکہ وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے سیاسی خیر سگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایم کیو ایم کی قیادت سے بھی رابطے کئے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے ایم کیو ایم کے احتجاج کے دوران زخمی ہونے والے رکنِ سندھ اسمبلی صداقت حسین کے گھر جا کر ان کی عیادت کی ۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے ایم کیو ایم کےکا رکن کے گھر جا کربھی تعزیت کی ۔ اس سے سیاسی کشیدگی کو کم کرنے میں کسی حد تک مدد ملی ۔

 اب حکومت سندھ کو چاہئے کہ وہ ان تین جماعتوں سے بلدیاتی قانون پر مذاکرات کرے اور انہیں مطمئن کرے کیونکہ کراچی اب مزید بدامنی اور سیاسی انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔

گزشتہ کچھ عرصے سے کراچی میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورت حال اور سیاسی بے یقینی کے باعث کراچی کے لوگ خوف زدہ ہیں ۔ بعض سیاسی جماعتوں کے بیانیے سے نہ صرف یہ تاثر مل رہا ہے کہ کراچی میں لسانی بنیادوں پر سیاست کا دوبارہ آغاز ہو سکتا ہے بلکہ یہ بھی خدشہ پیدا ہو رہا ہے کہ احتجاج ، ہڑتالوں وغیرہ سے شہر دوبارہ بند اور غیر محفوظ ہو سکتا ہے ۔

 تمام سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ ایسی صورت حال پیدا نہ ہونے دیں ۔ پیپلز پارٹی ، جماعت اسلامی ، ایم کیو ایم ، پاک سرزمین پارٹی ، مہاجر قومی موومنٹ سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو ذمہ دارانہ رویہ اور بیانیہ اختیار کرنا چاہئے ۔ یہ 1980 اور 1990 ء کا عشرہ نہیں ہے ۔ کراچی بہت بدل چکا ہے اور کراچی کی سیاسی حرکیات بھی تبدیل ہو چکی ہیں ۔ پرانے سیاسی کارڈز وقتی طور پر تو سیاسی جماعتوں کو فائدہ دے سکتے ہیں لیکن وہ پہلے والی پوزیشن میں نہیں آ سکتیں۔ کراچی کی سیاسی جماعتوں کو اب کراچی کی نئی ’’پولیٹکل ڈائنامکس ‘‘ کا ادراک کرنا ہو گا ۔

تشویش ناک بات یہ ہے کہ جن ملکی اور عالمی طاقتوں نے کراچی کو ماضی میں اپنے مقاصد کے لئے استعمال اور برباد کیا تھا ، وہ آج بھی پہلے کی طرح اپنے مقاصد کے لئے کراچی کو تختۂ مشق بنانا چاہتی ہیں ۔ سندھ میں بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں ۔ ان کے بعد ملک میں عام انتخابات ہوں گے ۔ مرکز میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں اپنے لائحہ عمل کا اعلان کر چکی ہیں ۔ 27فروری کو پاکستان پیپلز پارٹی نے کراچی سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے ۔ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم) نے 23 فروری کو لانگ مارچ کرنے کا پروگرام دیا ہے ۔

اس کے جواب میں تحریک انصاف نے 27فروری کو ہی حکومت سندھ کے خلاف گھوٹکی سے کراچی تک لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ تحریک انصاف کی اتحادی جماعتوں پر بھی سیاسی دباؤ ہو گا کہ وہ اپوزیشن کے احتجاج کو غیر موثر بنانے کے لئے حکومت کا ساتھ دیں ۔ یہ تمام عوامل خدانخواستہ سیاسی کشیدگی اور تصادم کو جنم دے سکتے ہیں ۔ 

ایسی صورت حال کا باقی ملک کی نسبت کراچی پر بہت زیادہ اثر پڑتا ہے کیونکہ کراچی میں سیاسی ، لسانی ، نسلی ، گروہی اور فرقہ وارانہ تضادات باقی ملک کی نسبت بہت زیادہ گہرے ہیں ۔ ان تضادات کو بعض ملکی اور بین الاقومی قوتیں زیادہ ہوا دیتی ہیں تاکہ وہ کراچی کو اپنے مقاصد کے لئےاستعمال کر سکیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھی کراچی میں بدامنی اور عدم استحکام کی صورت حال بہت حد تک مصنوعی نظر آتی ہے ۔

اب اس لیے خبردار رہنا چاہئے کہ کراچی کی سیاسی حرکیات بدل چکی ہیں ۔ اپنے مقاصد کےلئے کراچی کو استعمال کرنے والی قوتوں کو تو فائدہ ہو سکتا ہے ۔تاہم، بہتر یہ ہے کہ سیاسی اور جمہوری انداز میں بلدیاتی قانون سمیت دیگر ایشوز کو حل کر لیا جائے ۔ جیسا کہ ایک مثال قائم کی گئی ہے ۔ حکومت سندھ دیگر جماعتوں کے ساتھ بھی مذاکرات کرے اور دیگر جماعتوں کو بھی سندھ حکومت کے ساتھ مذاکرات میں انگیج ہونا چاہئے ۔ کراچی کے امن اور بہتر مستقبل کے لئے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔