01 فروری ، 2022
چند ہفتے قبل سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی صاحب نے پاکستان کی معیشت کا جو نقشہ کھینچا تھا، وہ انتہائی پریشان کن اور قابلِ فکر تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان تو معاشی طور پر دیوالیہ ہو چکا ہے، اب ہماری مرضی، ہم مانیں یا نہ مانیں۔
دوسرے معاشی ماہرین بھی معیشت کے بارے میں بہت فکر مند نظر آتے ہیں۔ ابھی گزشتہ روز سوشل میڈیا کے ذریعے ایک اور ماہرِ معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی کا ایک ٹی وی ٹاک شو میں دیا گیا بیان سنا تو رونگٹے کھڑے ہو گئے۔
اُن کا بھی یہی کہنا تھا کہ پاکستان معاشی طور پر دیوالیہ ہو چکا ہے اور قرضوں کے ایک ایسے جال میں پھنس چکا ہے کہ اب اگر حالات کو درست نہ کیا گیا تو ایسا وقت بھی آ سکتا ہے کہ ہمارے معاشی بحران کے تناظر میں ہم سے یہ تقاضہ کر دیا جائے کہ اپنا ایٹمی پروگرام ہمارے حوالے کر دو۔ اللہ نہ کرے کہ وہ دِن دیکھنا پڑے لیکن جو بات قیصر بنگالی صاحب نے کی وہ بالکل ممکن ہے، جسے ناممکن بنانے کے لیے ہمیں ہر حالت میں بحیثیت قوم کچھ سوچنا ہوگا۔ اپنے معاملات درست کرنا ہوں گے۔ ایسا نہیں ہو سکتا ہے ہمارے معاملات ایسے ہی چلتے رہیں اور ہم سوچتے رہیں کہ جب وہ وقت آئےگا تو دیکھا جائے گا۔
حال ہی میں بنائی گئی قومی سکیورٹی پالیسی میں بھی مضبوط معیشت کو پاکستان کی قومی سلامتی میں مرکزی حیثیت دی گئی ہے ،افسوس اِس بات پر ہے کہ یہ پالیسی صرف حکومت نے بنائی اور اِس کا اعلان کر دیا اور اِس میں اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
پالیسی بناتے وقت اپوزیشن کو بریفنگ کے لیے بلایا گیا تھا لیکن اُس وقت اپوزیشن نے اس میں شرکت نہ کی۔ جب پالیسی قومی ہو تو اُس کے لیے حکومت کو اپوزیشن سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ ملا کر ایک ساتھ بیٹھ کر پالیسی بنانی چاہیے اور جب معیشت کو قومی سکیورٹی پالیسی میں مرکزی حیثیت دے دی گئی تو صرف کاغذ پر لکھ کر اور اُس کاغذ کو سرکاری فائل میں رکھ دینے سے اُس پالیسی سے کچھ اچھا نکلنے کی امید کیسے کی جا سکتی ہے؟
جب فیصلہ ہو گیا اور اِس بات کا ادراک بھی ہے کہ معاشی حالات خراب ہیں اور اُنہیں بہتر بنانا ہی قومی مفاد میں ہے تو پھر اُس کے لیے ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں مل کر معیشت پر ایک قومی معاشی میثاق (Charter Of Economy) پر اتفاق کریں تاکہ ملک کی معیشت کو ایک ایسا رُخ ملے جس پر سب راضی ہوں اور روز روز حکومت یا افراد کے بدلنے سے پالیسیاں بدلنے کا رواج ختم ہو۔
اِس کام کے لیے حکومت، اپوزیشن، اسٹیبلشمنٹ سب کو مل کر ایک چھت تلے سوچ بچار کرکے پاکستان اور اُس کی سلامتی کی خاطر معیشت کو سنوارنے کے لیے عملی طور پر ایک ہونا پڑے گا۔ اگر ایسا نہیں ہوگا تو خدانخواستہ اِس کا نقصان پاکستان کو ہوگا، ہمارا دفاع، ہماری سلامتی ہمارا نیوکلئیر پروگرام سب خطرہ میں پڑ جائیں گے۔ پہلے ہی قرضوں کی وجہ سے ہم نے اپنے آپ کو کافی حد تک آئی ایم ایف کے حوالے کر دیا ہے، اِس کے ساتھ ساتھ کبھی چین، کبھی سعودی عرب اور کبھی عرب امارات سے امداد طلبی پر بھی مجبور ہیں۔ یہ سلسلہ کب تک چل سکتا ہے؟
عمران خان پاکستان کے وزیراعظم ہیں، اُنہیں چاہیے کہ اپنی Egoکو ایک طرف رکھ کر اپوزیشن کو ایک متفقہ معیشت کا قومی چارٹر کے بنانے کے لیے دعوت دیں۔ نواز شریف، شہباز شریف، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو اور دوسرے سیاسی رہنماؤں کو بھی اِس بارے میں مثبت رویہ اپنانا چاہیے۔ اگر اِس سلسلے میں حکومت کچھ نہیں کرتی یا وزیراعظم ماضی کی طرح اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنا اور ہاتھ ملانا بھی پسند نہیں کرتے تو اسٹیبلشمنٹ کو چاہیے کہ Facilitatorکا کردار ادا کرےجب عمران خان کی حکومت قائم ہوئی تو اُس وقت اپوزیشن نے تعاون کا ہاتھ بڑھایا اور معیشت پر قومی چارٹر بنانے کے لیے حمایت کا یقین دلایا لیکن وزیراعظم کی طرف سے چور چور، ڈاکو ڈاکو کی گردان نے تھمنے کا نام ہی نہ لیا اور اب پاکستان کی حالت یہ ہے کہ ہم معاشی طور پر بہت خطرناک حالت کو پہنچ چکے ہیں۔
قرضوں کی وجہ سے ملک کو بیرونی قوتوں کے ہاتھوں گروی رکھوانے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور اِس پر مستزاد یہ کہ پاکستان کرپشن میں بھی بہت آگے نکل گیا ہے اور حال ہی میں جاری ہونے والی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ نے تو بہت ہی مایوس کیا ہے۔ گویا بہتری کی بجائے بدتری کا سفر جاری ہے۔ خدارا پاکستان کی خاطر معیشت پر ایک قومی پالیسی بنائیں ورنہ یاد رکھیں پچھتاوے کے سوا ہمارے پاس کچھ نہ ہوگا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔