Time 20 فروری ، 2022
بلاگ

حجاب، عفت و عصمت اور عورت مارچ

وزیر مذہبی امور نورالحق قادری نے وزیراعظم عمران خان کو اپنے خط میں 8مارچ کو ہر سال منعقد ہونے والے عورت مارچ کو ’’اسلامی شعائر، معاشرتی اقدار، حیا و پاکدامنی اور پردہ و حجاب وغیرہ پہ کیچڑ اچھالنے یا ان کا تمسخر اڑانے کی اجازت نہ دینے‘‘ اور اس کی جگہ ’’بین الاقوامی یوم حجاب‘‘ منانے کا مطالبہ کیا ہے۔

 یوم حجاب منانے کا مطالبہ انہوں نے بھارت کی ریاست کرناٹک کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی صوبائی حکومت کی جانب سے مسلم طالبات کے لیے کالج یونیفارم کو لازمی قرار دئیے جانے کی آڑ میں حجاب کرنے یا برقع پہننے پر پابندی لگائے جانے کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے کیا ہے۔

 کرناٹک میں حجاب یا برقع پہننے پر پابندی کیا لگائی گئی کہ سیکولرو لبرل حلقوں اور ہندو قدامت پسندوں کے مابین ایک نظریاتی جنگ چھڑ گئی۔ لگتا ہے پاکستان کے مسلم قدامت پسند اور بھارت کے ہندو انتہا پسند عورتوں کی شخصی و مذہبی آزادی کے خلاف متحد ہوگئے ہیں کہ سرحد کے آر پار فرقہ پرست اور کٹر مذہبی حلقے تقویت پاسکیں۔

عورتوں کے حقوق کے لیے ہر سال عورت مارچ پہ اُسی طرح کے لغو الزامات دھرے جاتے ہیں جن کا اظہار وزیر مذہبی امور نے کیا ہے اور جس کی مخالفت میں وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور وزیر انسانی حقوق محترمہ شیریں مزاری بھی میدان میں اُتر آئے ہیں ،جس کی پیپلزپارٹی کی لبرل قیادت نے بھرپور مذمت کی ہے، دوسری جانب پی ڈی ایم کی مذہبی جماعت جمعیت علمائے اسلام نے عورت مارچ کو بزور طاقت روکنے کی دھمکی دے ڈالی ہے جو اس کے جمہوری دعویٰ کی نفی اور فسطائیت کا اظہار ہے۔

قرآن کی دو سورۃ، سورہ نور کی آیات ۳۱/۳۰ اور سورہ احزاب کی آیات ۵۹/۵۸ میں جو احکام صادر ہوئے ہیں ان کا مدعا مروجہ حجاب /برقع/ عبایہ سے قطعی مختلف ہے، گو کہ یہ ثقافتی علامات ضرور ہیں۔ سورہ نور کی آیات (۳۱/۳۰) میں مردوں اور عورتوں دونوں سے کہا گیا ہے کہ ’’مومن مردوں سے کہو کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم و حیاکی حفاظت کیا کریں۔‘‘ (۳۰) ’’اور مومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم و حیا کی حفاظت کیا کریں ۔۔۔ اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں۔‘‘

 سورہ احزاب (آیت ۵۹) میں ارشاد ہے کہ ’’اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادر کے پلو لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔‘‘ اور یہ ہدایت کفار کی ستم ظریفی سے بچاؤ کے لیے دی گئی تھی۔ ممتاز محقق محمد اسد نے اس کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس آیت میں لفظ ’’خمیار‘‘ سر کی اوڑھنی کے لیے استعمال ہوا ہے جو عرب خواتین سر پر رکھ کر پیچھے کی طرف ڈال لیتی تھیں۔

رہا عورت مارچ، یہ خواتین کی اپنے حقوق و آزادیوں کی ایک تاریخی جدوجہد کا تسلسل ہے جس کا سارا زور عورتوں کے مساوی انسانی حقوق پر ہے اور جنسی تفریق کے خلاف ہے۔ اپنی عفت و عصمت لوٹے جانے اور عورت کی جنسیت کے کاروبار اور جنسی استحصال کے خلاف ہے۔ تاریخ سے نابلد حضرات کو معلوم نہیں کہ جسے مغربی یا مسیحی دنیا کی تہذیب کہا جاتا ہے ، اس میں عورتوں کے حقوق و آزادیاں ویسے ہی صدیوں تک معدوم رہیں جیسے اب بھی مشرق میں ہیں۔

 مغرب میں ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا نعرہ عورتوں کے حق تولیدگی کے حوالے سے لگا تھا۔ زنا کاری، جنسی کاروبار، جنسی ہراسگی اور عورت کی جنس کو کاروبار اور منڈی کے بکائو مال بنائے جانے کے خلاف تحریک نسواں چلی اور اب بھی جاری ہے۔ پہلے یہ جدو جہد قانون و سیاسی حقوق کے لیے کی گئی جو ناپید تھے، پھر یہ عورتوں کے جنسی استحصال کے خلاف کی گئی اور یہ مختلف صورتوں میں پدرشاہی غلبے اور صنفی جبر کے خلاف جاری ہے۔ 

پاکستان میں جب ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا نعرہ لگا تو پدرشاہی روایات اور مردانہ حاکمیت کے جذبات مشتعل ہوئے۔ قدامت پسند حلقے پدرشاہی سماجی روایات اور پدرشاہی خاندان کے دفاع میں ہر طرح کے فتوؤں کے ساتھ میدان میں کود گئے۔ عورتوں کے کسی مظاہرے یا مارچ میں کب کسی عورت نے اپنی عفت و عصمت کی بے توقیری کی بات کی۔ اُلٹا انہوں نے معاشرے میں جاری جبری زنا، عورتوں کی خرید و فروخت، کاروکاری، غیرت کے نام پر قتل، وٹے سٹے، گھر، شہر، دفتر اور درسگاہ میں ہونے والے بچوں اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیوں اور ہراسگی کے خلاف آواز اُٹھائی ہے۔

 اخلاقی قدروں کے دعویدار ان مطالبات پہ اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی بجائے، ان کی کس منہ سے مذمت کرسکتے ہیں۔ عورتوں کو گھروں میں قید رکھ کر خاندان کو بچانے والے حضرات کو غالباً علم نہیں کہ نجی جائیداد کی طرح ریاست اور خاندان بھی ایک تاریخی عمل کی پیداوار ہے۔ اٹل اور ناقابلِ تغیر حقیقت نہیں۔ سماجی روایات، خاندانی مراسم اور تہذیبی تقاضے حالات کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ پدر شاہی خاندان کا نظام مدرسری نظام کے غیر طبقاتی معاشرے کے خاتمے پر وجود میں آیا تھا۔

 ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کے نعرے کے خلاف آواز اُٹھانے والے مرد حضرات کو معلوم نہیں کہ سب سے پہلے یہ نعرہ اُجرتی غلاموں نے سترہویں صدی میں لگایا تھا جیسے ہمارے ہاں بندھوا مزدوری (Bonded labour) کے خلاف ابھی بھی یہ جدوجہد جاری ہے۔ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا مطلب عورت کی زندگی پہ اس کا اپنا اختیار ہے۔ مرد اگر یہ اختیار رکھتا ہے تو عورت یہ اختیار کیوں نہ حاصل کرے۔ اور مرد کو عورت کی زندگی کے تمام پہلوئوں کو متعین کرنے کی اجارہ داری کیوں دی جائے ، بھلا اس سے مردانگی پر کیسی کاری ضرب کیوں نہ لگے۔ 

در حقیقت مرد و زن کے مابین نابرابری سے دونوں ہی ہم پلہ شرف انسانی سے محروم رہتے ہیں۔ مسئلہ لبرل ازم کا نہیں، فسطائیت کا ہے اور عورت مارچ پر پابندی کا مطالبہ کرنے والے دراصل فاشسٹ اور انسان دشمن ہیں۔ اب عورتیں حجاب پہنیں یا بے نقاب ہوں یہ ان کا شہری حق ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔