Time 21 فروری ، 2022
پاکستان

مسلم لیگ ن داؤ کھیلنے کو تیار، آگے کیا ہوگا؟

اُمید ظاہر کی گئی تھی کہ حکمران جماعت سے 20؍ سے 30؍ ارکان پارلیمنٹ اپوزیشن کا ساتھ دیں گے۔ فوٹو: فائل
اُمید ظاہر کی گئی تھی کہ حکمران جماعت سے 20؍ سے 30؍ ارکان پارلیمنٹ اپوزیشن کا ساتھ دیں گے۔ فوٹو: فائل 

اسلام آباد: جس وقت اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے منصوبے پر کام کر رہی ہیں، اس وقت ن لیگ نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیراعظم ملک کے اہم اداروں کو سیاست زدہ بنا رہے ہیں۔

ایسی نوعیت کا بیان اپوزیشن کی کوششوں کو تقویت دے سکتا ہے لیکن اندازہ غلط ثابت ہونے یا اس معاملے میں شامل دیگر جماعتوں کا ساتھ نہ ملنے کی صورت میں ن لیگ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

گزشتہ ہفتے کے حالات و واقعات بہت ہی اہم تھے اور کئی لوگ اس وقت حیران و پریشان نظر آئے جب آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے صدر مملکت اور ساتھ ہی وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کی۔

انگریزی روزنامہ ڈان میں لکھا تھا کہ اگرچہ آرمی چیف کی وزیراعظم کے ساتھ ملاقات افغانستان کے حوالے سے منعقدہ سیشن کے تناظر میں ہوئی تھی لیکن ایسا بمشکل ہی کبھی ہوا ہے کہ آرمی چیف نے صدر مملکت اور وزیراعظم سے ایک ہی دن ملاقات کی ہو۔

وزیراعظم آفس کی جانب سے عمران خان اور آرمی چیف کے درمیان ہونے والی ملاقات کے حوالے سے جاری کردہ بیان انتہائی مختصر ہونے نے بھی سیاسی مبصرین کے تجسس میں اضافہ کر دیا کہ آخر دونوں کے درمیان کیا بحث و مباحثہ ہوا ہوگا۔

اگلے دن ڈان نیوز کے ساتھ انٹرویو میں صدر مملکت نے انکشاف کیا کہ گزشتہ پیر کو انہوں نے وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کی تھی جس کے متعلق اخبار کا دعویٰ تھا کہ صدر اور وزیراعظم کے درمیان ملاقات کے حوالے سے کوئی پریس ریلیز جاری نہیں کی گئی۔

’’اس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ کوئی اہم معاملہ ہی زیر بحث آیا ہوگا کیونکہ صدر مملکت اور وزیراعظم کے سیکریٹریٹس کی جانب سے کوئی پریس ریلیز جاری نہیں کی گئی حالانکہ ایسی ملاقاتوں کے بعد پریس ریلیز جاری ہونا معیاری عمل ہے۔

15؍ فروری کو اس نمائندے نے دی نیوز میں خبر دی تھی کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے معاملے میں اپوزیشن پرجوش ہے کیونکہ رہنماؤں کو امید ہے کہ حالات ان کے ’’منصوبے‘‘ کے مطابق سامنے آئیں گے، صورتحال کو خفیہ رکھا جا رہا ہے اور صرف چند لوگ ہی اس کے بارے میں جانتے ہیں۔

اُمید ظاہر کی گئی تھی کہ حکمران جماعت سے 20؍ سے 30؍ ارکان پارلیمنٹ اپوزیشن کا ساتھ دیں گے جبکہ حکومتی اتحادیوں بشمول ق لیگ اور ایم کیو ایم کے ساتھ رابطے بھی پلان کا حصہ ہیں۔

دی نیوز میں اس خبر میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ’’پر امید رہنماء‘‘ ق لیگ اور ایم کیو ایم کے رہنماؤں کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں سے ناامید اور مایوس نہیں ہیں۔ انہیں اُمید ہے کہ پی ٹی آئی کے اتحادی اپوزیشن کا ساتھ دیں گے اور وزیراعظم کے خلاف مہینے کے آخر میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جائے گی۔ 

اتوار کو ن لیگ کی ترجمان مریم اورنگ زیب نے غیر معمولی لیکن انتہائی پریشان کُن بیان دیا جس میں انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ عمران خان پشاور میں تعینات ایک اہم عہدیدار کی مدد سے ارکان قومی اسمبلی پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ عدم اعتماد کی تحریک سے دوُر رہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے پہلے ہی ایک ادارے کو سیاست میں گھسیٹ کر اس کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر وزیراعظم کو ادارے کو استعمال کرنے سے نہ روکا گیا تو اُس با اثر عہدیدار کا نام سامنے لایا جائے گا۔

خیال کیا جاتا ہے کہ یہ بیان نواز شریف اور شہباز شریف کی حمایت سے جاری کیا گیا ہے اور اس کے سنگین نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ اس بیان کے بعد توقع ہے کہ کچھ بڑے واقعات پیش آئیں گے۔

مزید خبریں :