26 فروری ، 2022
روس کا کہنا ہے کہ یوکرین نے مذاکرات کی پیشکش مسترد کردی ہے جس کے بعد فوجی کارروائی پوری قوت کے ساتھ دوبارہ شروع کردی گئی ہے۔
روسی صدارتی محل (کریملن) کی جانب سے جاری بیان کے مطابق یوکرین نے مذاکرات کی پیشکش کو مسترد کرکے تنازع کو طول دیا ہے جس کے بعد روسی فوج نے اپنی پیش قدمی دوبارہ شروع کردی ہے۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے آج میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ ’متوقع مذاکرات کے پیش نظر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے جمعے کو روس کے مرکزی فوجی دستوں کو پیش قدمی روکنے کے احکامات دیے تھے تاہم اب چونکہ یوکرین نے مذاکرات سے انکار کردیا ہے لہٰذا آج دوپہر سے فوجیوں کی پیش قدمی دوبارہ شروع کردی گئی ہے۔‘
خیال رہے کہ گزشتہ روز روسی فوجی یوکرین کے دارالحکومت کیف میں داخل ہوچکے تھے اور پارلیمنٹ کی عمارت سے محض 9 کلو میٹر کے فاصلے پر موجود تھے تاہم پیوٹن نے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی اور اپنے اتحادی ملک بیلاروس میں مذاکراتی وفد بھیجنے کا اعلان کیا۔
گزشتہ روز ہی اپنے بیان میں پیوٹن نے کہا تھا کہ یوکرینی فوج حکومت کا تختہ الٹ دے اور یوکرینی حکومت کے نمائندوں کو دہشتگرد، نشے کے عادی اور ہٹلر کے پیروکار قرار دیا تھا۔
یوکرین کے صدر ولودومیر زیلینسکی بھی بار ہا مذاکرات کی اپیل کرتے رہے ہیں اور جب روسی فوجی کیف کے قریب پہنچے تو زیلینسکی نے پیوٹن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں ایک بار پھر روسی صدر سے کہنا چاہتا ہوں کہ یوکرین بھر میں لڑائی جاری ہے، آئیے مل کر بیٹھتے ہیں اور جانوں کے ضیاع کو روکتے ہیں۔‘
یہ واضح نہیں کہ جب یوکرینی صدر مذاکرات کے حامی ہیں تو پھر روس کی مذاکرات کی پیشکش کیوں مسترد کی گئی۔
خیال رہے کہ روس نے 24 فروری کو یوکرین پر حملہ کیا تھا اور دونوں ملکوں کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک دوسرے کو بھاری نقصان پہنچا چکے ہیں البتہ اس جنگ میں روس کا پلڑہ بھاری نظر آتا ہے۔