28 فروری ، 2022
روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کا آج پانچواں روز ہے جس میں فریقین کے بھاری جانی نقصانات کی اطلاعات ہیں، ایسے میں مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے دہرا معیار اپنانے اور نسلی تعصب ظاہر کرنے پر شدید تنقید کی جارہی ہے۔
سوشل میڈیا پر مغربی ذرائع ابلاغ اور یورپی و امریکی صحافیوں کی ان رپورٹس اور خبروں پر تنقید کی جارہی ہے جس میں وہ صرف یوکرین کی مزاحمت دکھا رہے ہیں اور یہ بھی واویلا کر رہے ہیں کہ کیسے ایک 'مہذب قوم' اس طرح کے تنازع کا شکار ہوسکتی ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے 'سی بی ایس' نیوز کےکیف میں موجود سینیئر نمائندے نے جمعےکے روز براہ راست نشریات کے دوران کہا کہ 'یہ عراق یا افغانستان کی طرح کی جگہ نہیں جو کہ دہائیوں سے تنازعات کا شکار ہیں، بلکہ یہ قدرے مہذب (civilised) اور یورپی لوگ ہیں، ایسا شہر جس کے بارے میں آپ اس طرح کے حالات سوچ بھی نہیں سکتے، وہاں ایسا ہورہا ہے'۔
اس بیان پر سوشل میڈیا صارفین نے شدید تنقید کی اور امریکی ٹی وی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، صارفین کا کہنا تھا کہ یہ بیان مکمل طور پر غیر انسانی ہے اور ظاہرکرتا ہےکہ تنازعات کے شکار غیر سفید فام اور غیریورپی اقوام کےساتھ مرکزی دھارے میں شامل میڈیا کا کس طرح کا رویہ ہے۔
ہفتے کے روز برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے ایک پروگرام میں یوکرین کے سابق ڈپٹی جنرل پراسیکیوٹر سے بات کی، جس میں ان کا کہنا تھا کہ ' یہ میرے لیے انتہائی جذباتی موقع ہےکیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ سنہری بالوں اور نیلی آنکھوں والے یورپی لوگ روزانہ پیوٹن کے میزائلوں،راکٹوں اور ہیلی کاپٹر حملوں میں ہلاک ہو رہے ہیں' ، نسلی تعصب پر مبنی اس بیان پر بی بی سی کے اینکر نے مزمت کرنے کے بجائے کہا کہ میں سمجھ سکتا ہوں اور آپ کے جذبات کی قدر کرتا ہوں۔
اس معاملے پر بھی سوشل میڈیا صارفین نے بی بی سی کو آڑے ہاتھوں لے لیا اور اینکر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
ایک صارف کا طنزاً کہنا تھا کہ سنہری بالوں اور نیلی آنکھوں والے مشرق وسطیٰ اور افریقا میں بم برسائیں تو وہ ٹھیک ہے۔ایک صارف نے کہا کہ سفید فام افراد کی برتری ظاہر کرنا یورپ کی بنیادی اقدار ہے۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ نیوز کے انگریزی زبان کے میزبان پیٹر ڈوبی نے جنگ زدہ علاقوں سے نکلنے والے یوکرینی شہریوں کے بارے میں کہا کہ وہ خوشحال اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں ، وہ لوگ پناہ گزین نہیں جو مشرق وسطیٰ میں اپنے جنگ زدہ ممالک سے نکلنا چاہتے ہیں، نہ ہی وہ شمالی افریقا کے لوگ ہیں جو وہاں سے نکلنا چاہتے ہیں، 'بلکہ یہ لوگ کسی بھی یورپی خاندان کی طرح ہیں جو کہ آپ کے ساتھ والے گھر میں رہتا ہے'۔بعد ازاں الجزیرہ نیوز کی جانب سے اس معاملے پر معافی بھی مانگی گئی۔
ایک اور برطانوی ٹی وی چینل اسکائے نیوز نے ایک ویڈیو نشرکی جس میں وسطی یوکرین میں شہریوں کو دفاع کے لیے پیٹرول بم تیار کرتے ہوئے دکھایا گیا اور انہیں سراہا گیا۔
صارفین نے اس پر مغربی ذرائع ابلاغ کے دہرے معیارکو تنقید کا نشانہ بنایا، ایک صارف کا کہنا تھا کہ اگر یہ کام فلسطین، افغانستان یا کسی اور قوم کے لوگ قابض افواج کے خلاف مزاحمت کے لیے کرتے تو اسے دہشت گردی کہا جاتا، بلکہ نیلسن منڈیلا کی نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کے دور میں اسے دہشت گردی کہا بھی جاچکا ہےتاہم اب جب یورپی شہری اسی صورتحال کا سامنا کررہے ہیں تو یہ مزاحمت کہلائی جارہی ہے جو کہ مغرب کے دہرے معیار کی واضح علامت ہے۔
فرانس میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والے کیبل ٹی وی چینل بی ایف ایم پر نشریات کے دوران نمائندے نے کہا کہ ' یہاں ہم شامی شہریوں کی بات نہیں کررہے جو کہ پیوٹن کی حمایت یافتہ حکومت کی بمباری سے بچ کر بھاگ رہے ہیں بلکہ ہم بات کررہے ہیں یورپی شہریوں کی جو ہماری طرح دِکھتے ہیں اور جانیں بچانے کے لیے گاڑیوں میں بھاگ رہے ہیں'۔
اس کے علاوہ بھی سوشل میڈیا صارفین نے افغانستان، عراق، یمن اور فلسطین کے مقابلے میں یوکرین کو زیادہ توجہ دینے پر عالمی ذرائع ابلاغ کو ہدف تنقید بنایا ہے۔