Time 03 مارچ ، 2022
بلاگ

سود کی لعنت۔ ہمارے حکمران اور جج

آئینِ پاکستان کہتا ہے کہ یہاں کوئی قانون قرآن و سنت کی تعلیمات کے منافی نہیں بن سکتا۔ پاکستان میں ایک نہیں درجنوں بلکہ سینکڑوں ایسے قوانین ہیں جن کے متعلق اسلامی نظریاتی کونسل اپنی سالانہ رپورٹس میں یہ کہہ چکی ہے کہ یہ غیراسلامی قوانین ہیں۔ 

ان رپورٹس کے ذریعے کونسل پارلیمنٹ کو یہ سفارش بھی کر چکی ہے کہ ان قوانین کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالا جائے لیکن افسوس کہ پارلیمنٹ کو کبھی وقت ہی نہیں ملا کہ ایسے قوانین میں ترامیم کرکے انہیں درست کرے۔ یہ پارلیمنٹ کی آئینی ذمہ داری ہے لیکن اس مسئلہ پر نہ سیاسی پارٹیاں بولتی ہیں، نہ میڈیا، نہ عدالت، نہ سول سوسائٹی اور نہ ہی این جی اوز۔ 

ویسے آئینِ پاکستان کی کسی بھی اسلامی شق پر، جب سے یہ آئین بنا، پوری طرح عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ ہمارا اسلامی آئین صرف دکھاوے کے لیے ہے، اُس پر سنجیدگی سے عملدرآمد ہوتا نظر نہیں آتا۔ موجودہ آئین کو بنے تقریباً 50سال ہو گئے ہیں لیکن ہم آج تک سودی نظامِ معیشت سے جان نہیں چھڑا سکے۔ باوجود اس کے کہ سودی نظام نے ہماری معیشت کو تباہ کر دیا ہے اور آج ہماری یہ حالت ہے کہ ہم روزانہ کی بنیاد پر اربوں روپے کا قرضہ پرانے قرضوں پر چڑھے سود کی ادائیگی کے لیے لیتے ہیں۔

 گویا اصل قرضے کو بھول جائیں، ہم تو سود ہی ادا نہیں کر پا رہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمارے بجٹ کا سب سے بڑا حصہ بھی سود کی ادائیگی میں ہی خرچ ہو تا ہے اور یوں ہم اس لعنت کی وجہ سے ایک ایسی دلدل میں پھنس چکے ہیں کہ تباہی کے علاوہ کوئی رستہ نظر نہیں آ رہا۔

 اس سے بھی اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہم دنیا کے ساتھ ساتھ اس لعنت کی وجہ سے اپنی آخرت بھی تباہ کر رہے ہیں۔ 30سال پہلے ہمارے سودی نظامِ معیشت کو وفاقی شرعی عدالت نے غیراسلامی، غیرآئینی اور غیرقانونی قرار دیا لیکن بدقسمتی سے اُس فیصلہ پر عملدرآمد کرنے کی بجائے نواز شریف حکومت نے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ سپریم کورٹ کے شرعی اپیلیٹ بنچ نے کئی سال بعد، 1999-2000میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ کے حق میں آرڈر پاس کیا لیکن مشرف حکومت نے اس پر عملدرآمد کی بجائے سپریم کورٹ سے اس فیصلے کو 2001-2002میں دوبارہ وفاقی شرعی عدالت کو واپس بھجوا دیا۔

 بدقسمتی سے وفاقی شرعی عدالت میں یہ کیس گزشتہ 20سال سے پڑا ہے لیکن اس پر کوئی فیصلہ نہیں ہو رہا۔ شرعی عدالت میں کئی جج آئے، کئی چلے گئے لیکن کسی نے اس کیس پر فیصلہ نہیں دیا۔ اس دوران میں نے کئی بار لکھا بھی کہ آخر کتنی دہائیاں وفاقی شرعی عدالت کو مزید چاہئیں؟

 شرعی عدالت میں جو جج حضرات تعینات ہوتے ہیں وہ یقیناً اسلام اور اسلامی تعلیمات سے واقف ہوتے ہوں گے، اُنہیں اس کیس کی اسلامی تعلیمات کے مطابق حساسیت کا علم ہوگا، وہ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ یہ کتنا بڑا گناہ ہے اور پوری قوم اس گناہ میں محض اس لیے ملوث ہے کہ ریاست، حکومت اور عدالتیں اس کیس پر فیصلہ نہیں کرتیں۔ ہم اللہ کو کیا جواب دیں گے؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر ذمہ دار کو اس مسئلہ میں اپنے آپ سے ضرور کرنا چاہیے۔

 یہ سوال نواز شریف کو اپنے آپ سے کرنا چاہیے، یہ سوال اُن کے بعد آنے والے دوسرے حکمرانوں بشمول مشرف کوبھی اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے۔ یہ سوال اُن تمام جج حضرات کو بھی اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے جنہوں نے سودی نظام کے خلاف فیصلے کو لٹکایا۔ یہی سوال پارلیمنٹ کے ممبران کو خود سے پوچھنا چاہیے۔

گزشتہ کچھ عرصہ سے مجھے میڈیا کے ذریعے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت اس کیس کو ماضی کے مقابلہ میں بہتر انداز میں سن رہی ہے۔ آج (بروز بدھ) کے جنگ اخبار میں ایک خبر پڑھی جس میں وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس محمد نور مسکان زئی نے سود کے خلاف کیس سنتے ہوئے یہ ریمارکس دیے کہ آئین کے مطابق سودی نظامِ معیشت کیس کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اُنہوں نے یہ ریمارکس بھی دیے کہ آئین ہمیں قرآن و سنت سے متصادم قوانین کو کالعدم کرنے کا اختیار دیتا ہے۔

 مجھے امید ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کے موجودہ چیف جسٹس اور دوسرے جج حضرات اس کیس کی اسلامی اور معاشی لحاظ سے نزاکتوں کا خیال کرتے ہوئے جلد از جلد فیصلہ سنائیں گے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔