03 مارچ ، 2022
بلاول پانچ سال کے ہوں گے جب ان کی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو گرانے کے لیے لانگ مارچ کا اعلان کیا۔ تیاریاں مکمل تھیں۔
جنرل عبدالوحید کاکڑ لانگ مارچ کو ملک کے حق میں نہیں سمجھ رہے تھے۔ بات ہوئی تو محترمہ کی طرف سے کہا گیا کہ اگر میاں نواز شریف مستعفی ہوجائیں تو وہ لانگ مارچ منسوخ کرسکتی ہیں۔ وعدہ کرلیا گیا۔ محترمہ کی ایک کال پر لانگ مارچ رُک گیا۔ جنرل کاکڑ بہت متاثر ہوئے کہ اصل لیڈر تو یہ ہیں جن کی ایک کال پر سب نقل و حرکت معطل ہوسکتی ہے۔ وہ وزیر اعظم سے استعفیٰ لینے پہنچے۔ انہوں نے شرط عائد کی کہ اگر صدر غلام اسحٰق خان مستعفی ہوں تو وہ بھی مستعفی ہوسکتے ہیں۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
لانگ مارچ کے الفاظ جب استعمال ہوتے ہیں تو تاریخ تڑپنے لگتی ہے۔ ماضی میں یہی مارچ کتنی مشکل سے ہوئے تھے۔ اب کس طرح روز روز ہوتے رہتے ہیں۔ چیئرمین مائوزے تنگ کا لانگ مارچ جس نے آج کے مستحکم چین کی بنیاد رکھی، یہ لانگ مارچ در اصل چینی کمیونسٹ پارٹی کی سرخ فوج کی فوجی پسپائی تھی۔ 370 دن۔ 9 ہزار کلومیٹر۔ بہت دُشوار گزار۔پہاڑی راستے۔ ہر وقت کومن تانگ فوج کی یلغار کا خطرہ۔ 69 ہزار چلے تھے۔ منزل پر 7 ہزار پہنچے۔
ہمارے ہاں لانگ مارچ اکثر شارٹ ہوتے ہیں۔ لاہور سے گوجرانوالہ پہنچ کر ختم ہوجاتے ہیں۔ ایک جنرل کا پیغام ضروری ہوتا ہے۔ دیکھیں اب کے کوئی جنرل صاحب حرکت میں آتے ہیں یا نہیں۔
مقصد تو یہ بتایا گیا ہے کہ عمران حکومت کو گرانا ہے۔ مگر ایک 38نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ بھی پیش کردیا گیا ہے۔ اس حکومت کو تو آپ ایک منٹ بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ پھر یہ مطالبات کس سے کئےجارہے ہیں؟
ہماری تاریخ کی آنکھوں نے بار بار دیکھا ہے کہ حکمرانوں کے متبادل عوام کو تلاش کرنے نہیں دیے جاتے۔ یہ فریضہ وائٹ ہائوس کو انجام دینا پڑتا ہے یا اسٹیبلشمنٹ کو۔ شاید یہ تلاش شروع ہوچکی ہے۔ اسلام آباد سے بہت سی کہانیاں سفر کرتی کراچی تک بھی پہنچتی ہیں۔ خفیہ ملاقاتیں۔
لاہور میں لندن میں۔ گلے شکوے عوام کے مسائل کے حوالے سے نہیں۔ ذاتی رنجشیں خاندانی معذرتیں۔ ہم گنہگار یہ کھیل 1950 سے دیکھتے سنتے آرہے ہیں۔ ان خفیہ ملاقاتوں نے ملک میں کوئی سسٹم ہی نہیں بننے دیا۔ اب پاکستان ایک قبائلی معاشرہ بن گیا ہے۔ ادارے بھی قبیلے ہیں۔ اور قومی سیاسی جماعتیں بھی لڑتے جھگڑتے قبیلے۔ آئین۔ پارلیمنٹ۔ عہدے ان قبیلوں کی داشتائیں ہیں۔
ہم یہ بھی دیکھتے آئے ہیں کہ جب عوام مشتعل ہونے والے ہوتے ہیں۔ اور واہگہ سے گوادر تک ایک حقیقی انقلاب کی صورت بننے والی ہوتی ہے۔ جب غریب محنت کش طلبہ بلا امتیاز صوبہ۔ رنگ۔ نسل ایک سمت میں سوچنے لگتے ہیں تو ان قبیلوں کے سردار گھبراجاتے ہیں۔ وہ کوئی ایک نمائشی تبدیلی لے آتے ہیں۔ متبادل قیادت جو اس وقت لانگ مارچ۔ تحریک عدم اعتماد کے لیے سرگرم ہے، وہ 1985 سے کسی نہ کسی صورت میں حکمرانی کرتی آرہی ہے۔ 36 سال سیاسی پارٹیوں کو آزمانے کے لیے کم نہیں ہوتے۔
اس عرصے میں ان پارٹیوں کی پالیسیوں سے ملک میں مثبت تبدیلیاں آئیں یا مزید بگاڑ ہوا۔ یہ بالکل درست ہے کہ عمران خان اور ان کی ٹیم گرتی ہوئی معیشت سنبھال نہیں سکے۔ لیکن ان آزمائی ہوئی قیادتوں سے کیسے امید کی جائے کہ وہ حالات کو بہتر کرسکیں گی۔ میں تاریخ کے ایک طالب علم اور ایک سینئر شہری کی حیثیت سے یہ پوچھنے کا حق رکھتا ہوں کہ اس وقت ملک کو جو سنگین چیلنج درپیش ہیں ان کے مقابلے کے لیےپاکستان پیپلز پارٹی۔
پاکستان مسلم لیگ(ن)۔ جمعیت علمائے اسلام۔ کے پاس الگ الگ یا مشترکہ طور پر کیا لائحہ عمل ہے۔ 1۔ ملکی معیشت کی بہتری کے لیے آپ کے پاس کیا روڈ میپ ہے۔2۔آئی ایم ایف کی شرائط پوری کریں گے یا اس پروگرام کو منسوخ کردیں گے۔ 3۔ملک پر جو بیرونی قرضے اربوں ڈالر کی صورت میں ہیں ان کی ادائیگی سے انکار کریں گے یا موخر کروائیں گے۔4۔FATF کے کٹہرے میں اپنی صفائی میں کیا پیش کریں گے۔5۔امریکہ کے اتحادی بنے رہیں گے یا نہیں۔
6۔چین سے تعلقات کی کیا صورت ہوگی۔ سی پیک اس طرح سست رفتار رہے گا۔7۔ عالمی بینک اور عالمی ادارۂ تجارت سے آزاد ہوں گے یا ان کی تابع فرمانی کریں گے۔8۔یورپی یونین کی پابندیوں کو من و عن قبول کریں گے۔9۔پاکستانی کرنسی کو ڈالر سے بندھا رکھیں گے یا آزاد کریں گے۔10۔ریاست کی تحویل میں ملک پر بوجھ بنے اداروں پی آئی اے۔ اسٹیل مل۔ وغیرہ پر یونہی خرچ کرتے رہیں گے۔11۔ریلوے کا دائرہ کار بڑھائیں گے یا کم کرینگے۔ 12
۔ بڑے شہروں میں مقامی ریلوے۔ زیر زمین ٹرینوں کا نظام قائم کریں گے یا نہیں۔13۔ بڑے چھوٹے شہروں کے اندر اور درمیان پبلک ٹرانسپورٹ کیلئے کیا پروگرام ہے۔14۔ موجودہ حکومت کرپشن کے خاتمے کا عزم لے کر آئی۔ لیکن اس میں ناکام رہی۔ آپ کرپشن کے خاتمے کے لیے کیا منصوبے رکھتے ہیں۔اپنے لیڈروں پر لگے کرپشن کے داغ کس طرح دھوئیں گے۔15۔ ملک کے مقتدر اداروں سے کیسے تعلقات رکھیں گے۔
16۔احتساب کے لیے قائم نیب کو برقرار رکھیں گے یا تبدیلی لائیں گے۔17۔افغانستان پالیسی کیا ہوگی۔ 18۔ انڈیا پالیسی کیسی تشکیل دیں گے۔19۔ صحت کارڈ جاری رکھیں گے یا منسوخ کریں گے۔20۔فی ایکڑ گندم۔ چاول۔ کپاس۔ گنے کی پیداوار بڑھانے کے لیے کیا پالیسی ہوگی۔
21۔ تعلیمی پالیسی کیا ہوگی۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ساتھ کیا پرائمری ایجوکیشن کمیشن بھی لائیں گے۔22۔مذہبی پالیسی کیا ہوگی۔ فرقہ وارانہ تشدد ختم کرنے کے لیےکیا کریں گے۔23۔ آپ کی کنسٹرکشن پالیسی کیا ہوگی۔ موجودہ حکومت نے جو مراعات دی ہیں وہ برقرار رکھیں گے یا نہیں۔24۔ دنیا بھر میں پانی کی قلت ایک سنگین مسئلہ بنی ہوئی ہے۔
اس کے لیے آپ کی پالیسی کیا ہوگی۔25۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے لیے اس وقت جو قانون منظور کیا گیا ہے اسے تبدیل کریں گے یا نہیں۔26۔ 8مارچ کو ہونے والے عورت مارچ کے لیے آپ کی پالیسی۔ 27۔ سوشل میڈیا پر مکمل آزادی دیں گے یا موجودہ قوانین کو برقرار رکھیں گے۔
28۔ آبادی میں اضافے کی شرح پر قابو پانے کیلئے کچھ کرینگے۔ آپ اگر ان سوالات میں اضافہ کرنا چاہیں تو بخوشی کرلیں۔ اپنے اپنے حلقے میں اپنے ایم این اے۔ ایم پی اے سے یا ان پارٹیوں کے رہنمائوں سے ضرور یہ سوالات کریں۔ متبادل قیادت اور ایک سسٹم قائم کرنے کیلئے یہ رہنما خطوط ناگزیر ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔