پاکستان کا ’عورت مارچ‘ 2022

خواتین کے عالمی دن کا مقصد کامیابیوں کو اجاگر کرنا اور ابھی تک حل طلب مسائل کے بارے میں بات چیت کرنا ہے —فوٹو: فائل
خواتین کے عالمی دن کا مقصد کامیابیوں کو اجاگر کرنا اور ابھی تک حل طلب مسائل کے بارے میں بات چیت کرنا ہے —فوٹو: فائل

8 مارچ کو دنیا بھر کی خواتین ایک ایسے دن کو مناتی ہیں جسے وہ اپنا نام دیتی ہیں۔

 خواتین کے عالمی دن کا مقصد کامیابیوں کو اجاگر کرنا اور ابھی تک حل طلب مسائل کے بارے میں بات چیت کرنا ہے۔اس سال یوم خواتین کی تھیم #BreakTheBias ہے، جو اس خیال کو اجاگر کرتی ہے کہ تعصب کے وجود کو تسلیم کرنا کافی نہیں ہے۔ مساوات کے حصول کے لیے عمل ضروری ہے۔

جب باقی دنیا خواتین کے لیے حالات کو بہتر بنانے کے لیے حکمت عملی وضع کر رہی ہے، پاکستانی خواتین کو اس چیلنج کا سامنا ہے کہ آیا انہیں اس دن عوامی فورم پر اپنے مسائل کا اظہار کرنے کی اجازت بھی دی جائے گی یا نہیں۔

2018 سے  پاکستانی حقوق نسواں خواتین کے دن کے لیے بڑے عوامی مظاہروں کا اہتمام کر رہے ہیں جسے عورت مارچ کہتے ہیں- عورت مارچ کی مخالفت اس کی مقبولیت اور اثر کے تناسب سے بڑھی ہے۔

میں نے پچھلے چار مارچوں میں شرکت کی ہے ، پہلے دو کراچی اور پھر لاہور میں، مختلف اوقات میں میری خالہ اور بیٹی، دوستوں، شوہر اور کام کے ساتھیوں نے شرکت کی۔ اس سال میں پاکستان سے دور ہوں اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ مارچ کرنے سے محروم رہوں گی۔

2020 میں، منتظمین کو مارچ کی اجازت کے لیے لاہور کی ایک عدالت سے حکم نامہ لینا پڑا،اس سال اس سے بھی زیادہ جوش کی صورتحال ہے۔

پاکستان کے وزیر برائے مذہبی امور نے یہاں تک مطالبہ کیا ہے کہ ملک 8 مارچ کو یوم حجاب کے طور پر منائے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں خواتین حجاب پہننے کے لیے آزاد ہیں یہ عجیب بات ہے ۔ اس کے علاوہ پہلے سے ہی ایک سالانہ عالمی یوم حجاب منایا جا رہا ہے، جس کا آغاز نیویارک شہر سے 2013 میں ہوا اور ہر سال یکم فروری کو منایا جاتا ہے۔

تاہم جب خواتین نے کراچی میں پہلا عورت مارچ منعقد کیا تو معاشرے میں کسی کو بھی اتنے بڑے ٹرن آؤٹ کی توقع نہیں تھی لیکن 200-300 کے بجائے تاریخی فریئر ہال کے گارڈن میں خواتین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

2020 میں، منتظمین کو مارچ کی اجازت کے لیے لاہور کی ایک عدالت سے حکم نامہ لینا پڑا،—فوٹو: فائل
2020 میں، منتظمین کو مارچ کی اجازت کے لیے لاہور کی ایک عدالت سے حکم نامہ لینا پڑا،—فوٹو: فائل

زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کو بنیادی حقوق کے لیے آواز اٹھانے کے لیے شامل ہوتے دیکھنا حیرت انگیز تھا، پلے کارڈز اور تقاریر کے ذریعے اٹھائے گئے مسائل میں وراثت کے حقوق، تعلیم کا حق، صحت کی خدمات اور مساوی اجرت تک رسائی، بلا معاوضہ مزدوری، گھریلو تشدد، کام اور عوامی مقامات پر حفاظت کا مطالبہ شامل ہیں۔

یہ معاشرے کے ایک طبقے کی طرف سے ایک مضبوط بیان تھا جسے بڑے پیمانے پر محکوم اور جبر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

بہت سے لوگوں نے بڑے پیمانے پر ٹرن آؤٹ مسترد کر دیا تاہم، خواتین نے اسے ایک ویک اپ کال کے طور پر لیا تاکہ وہ ان رکاوٹوں کو توڑنے پر کام جاری رکھیں جنہوں نے ہمیں بہت سے شعبوں میں روک رکھا ہے۔

یہ مارچ بعد میں بڑا ہوتا گیا اور کراچی، حیدر آباد، لاہور، ملتان، اسلام آباد، حتیٰ کہ وادی ہنزہ میں بھی خواتین مارچ کرنے کے لیے بڑی تعداد میں نکلیں۔

مرد اپنے اہل خانہ کے ساتھ تقریب میں شامل ہونے لگے —فوٹو: فائل
مرد اپنے اہل خانہ کے ساتھ تقریب میں شامل ہونے لگے —فوٹو: فائل

مرد اپنے اہل خانہ کے ساتھ تقریب میں شامل ہونے لگے۔ قدامت پسند عناصر کی جانب سے ایونٹ کو ملنے والے بڑھتے ہوئے خطرات کے باوجود تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ عورت مارچ کے آغاز کے بعد سے لگائے جانے والے نعروں نے ایک اثر پیدا کر دیا ہے کیونکہ وہ خود مختاری، مساوات، آزادی کا مطالبہ کرکے غالب اصولوں اور صنفی کرداروں کو چیلنج کر رہی ہیں۔

عورت مارچ میں اٹھائے گئے مسائل میں بچوں کی عصمت دری، جنسی زیادتی، غیرت کے نام پر قتل شامل ہیں۔

مارچ کے مخالفین ان سے بالکل بے خبر نظر آتے ہیں اور کبھی ان مطالبات پر توجہ نہیں دیتے بلکہ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ جیسے نعروں کی مخالفت کرتے ہیں جو کہ 2019 کے مارچ میں سامنے آئے۔ یہ صنفی تشدد، جنسی ہراسانی کے خاتمے اور بانڈڈ لیبر کے خلاف تھا لیکن مارچ کے مخالفین نے اسے جنسی خواہش سے جوڑ دیا۔

عورت مارچ کے بانی ارکان میں سے ایک پرفارمنگ آرٹسٹ شیما کرمانی کہتے ہیں کہ 'مجھے لگتا ہے کہ عورت مارچ نے خواتین کے حقوق کے بارے میں بیانیہ بدل دیا ہے اور اس نے پدرانہ نظام کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے'۔

اس کے علاوہ اداکارہ ماہرہ خان جیسی مشہور شخصیات مارچ کی حمایت میں سامنے آئیں اور وضاحت کی۔

مخالفین مارچ کو غیر محفوظ قرار دیتے ہیں، ذاتی طور پر میں نے عورت مارچ کو پاکستان میں کسی بھی عوامی جگہ سے زیادہ محفوظ پایا ہے۔ ان میں سے کسی بھی تقریب میں ہنگامہ آرائی یا "تنگ کرنے" کے واقعات کی اطلاع نہیں ملی ہے۔

برقع اور حجاب میں ملبوس خواتین کی بڑی تعداد، شلوار قمیض میں خواتین کے ساتھ مل کر مارچ کرتی ہے—فوٹو: فائل
برقع اور حجاب میں ملبوس خواتین کی بڑی تعداد، شلوار قمیض میں خواتین کے ساتھ مل کر مارچ کرتی ہے—فوٹو: فائل

عورت مارچ کے مظاہرے جامع تقاریب ہیں جن میں مختلف پس منظر، خیالات اور عقائد سے تعلق رکھنے والی خواتین شرکت کرتی ہیں۔ برقع اور حجاب میں ملبوس خواتین کی بڑی تعداد، شلوار قمیض میں خواتین کے ساتھ مل کر مارچ کرتی ہے۔ ان میں سے کچھ دوپٹوں کے ساتھ، کچھ ان کے بغیر بھی، یا کچھ ساڑھی اور جینز میں بھی مارچ میں شریک ہوتی ہیں۔

یہ دوسرے نقطہ نظر کو سمجھنے کے لیے مکالمے میں مشغول ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے کیونکہ اسی طرح مہذب معاشرے اپنے مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں۔

اور ابھی تک، صرف مخالفت ہی نہیں، بلکہ ایونٹ کے لیے خطرات بھی بڑھے ہیں۔ یہ اخلاقی اور سماجی اقدار پر گہری ہوتی ہوئی سماجی تقسیم کو ظاہر کرتا ہے۔

اس کے ساتھ جھوٹے الزامات اور سوشل میڈیا پر ڈس انفارمیشن کی مہم کے ذریعے عورت مارچ کو بدنام کرنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ مارچ کے پلے کارڈز فوٹو شاپ کیے جاتے ہیں اور اصل مقصد کو مسخ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

کسی نے کراچی مارچ کی جعلی ویڈیو بنا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی جیسے مارچ کے شرکاء نے خدانخواستہ "توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم" کا ارتکاب کیا تھا- یہ ایک ایسا الزام ہے جو پاکستان میں ہجوم کے ہاتھوں قتل تک کا باعث بن سکتا ہے۔

اس ویڈیو کی حقیقت اس وقت سامنے آئی جب جیو ٹی وی کے اینکر شاہ زیب خانزادہ نے اس معاملے کی چھان بین کی اور دکھایا کہ ویڈیو کو کیسے تبدیل کیا گیا۔

عورت مارچ ایک غیر معمولی کامیابی ثابت ہوا ہے، جس نے معاشرے کو خواتین کی کوششوں کو تسلیم کرنے پر مجبور کیا۔ اس نے ان حقوق کے بارے میں ملک گیر بحث کو بھی جنم دیا ہے جن کا خواتین کو حق ہے لیکن ان سے انکار کیا جاتا ہے۔

خواتین کے بنیادی حقوق کے مطالبات مختلف شہروں میں ہونے والے عورت مارچ کے پروگراموں کے نمایاں موضوعات میں جھلکتے ہیں۔ ہر ایک کی توجہ مختلف ہو سکتی ہے لیکن مجموعی طور پر، وہ ان مسائل پر زور دیتے ہیں جن کا پاکستان بھر میں خواتین کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔

عورت مارچ کی مخالفت کرنے والوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہم سب کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ تعصبات کو ختم کرنے کے لیے مل کر کام کریں جو ہماری نصف آبادی کو روکے ہوئے ہیں۔

*بلاگر، ماہر تعلیم اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رکن ہیں۔ ان کی یہ تحریر ساؤتھ ایشیا پیس ایکشن نیٹ ورک کے تعاون سے پیش کی گئی ہے۔*


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔