12 مارچ ، 2022
پاکستان میں کسی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ کل کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ پیش گوئی اور تجزیہ تبھی ممکن ہوتا ہے جب کھیل کے رولز معلوم ہوں اور کھیل بھی رولز کے تحت ہورہا ہو۔ یہاں چند افراد کے ہاتھوں میں اس قوم کی تقدیر ہے، ان میں سے کسی ایک فرد کی سوچ میں تبدیلی یا دو افراد کے گٹھ جوڑ سے سارا کھیل الٹ سکتا ہے۔
اس لیے کل کے بارے میں کوئی بات یقین کے ساتھ نہیں کی جا سکتی لیکن سرِدست عمران خان کی رخصتی یقینی نظر آتی ہے۔وجوہات اس کی تین ہیں۔ ان کی حکومت اسٹیبلشمنٹ لائی تھی، وہ بچارہی تھی اور وہی چلا رہی تھی۔ اب اس نے ہاتھ اٹھا کر غیرجانبداری اختیار کر لی ہے۔ اس غیرجانبداری کا نہ صرف وہ خود اعلان کررہے ہیں بلکہ مولانا، زرداری اور نواز شریف سمیت پوری اپوزیشن کو اس کا یقین بھی ہو گیا ہے۔ یوں عمران خان کو پہلی مرتبہ خود حکومت بچانی اور سیاست کرنی پڑرہی ہے جو انہوں نے رَتی بھر نہیں سیکھی۔
دوسری وجہ جس کے باعث ہم جیسے طالب علموں کو ان کے جانے کا یقین ہوچکا ہے یہ کہ وہ بدترین بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے ہیں جو میڈیا اور اپوزیشن کے خلاف ان کی کارروائیوں اور لہجے کے بےقابو ہونے سے عیاں ہے۔تیسری وجہ یہ ہے کہ خود انہوں نے ان دو چیزوں کی آڑ لینا شروع کردی ہے جو پاکستان کے اندر حکمران اپنے اقتدار کا سورج غروب ہوتا دیکھ کر لیتے ہیں۔ ایک یہ کہ امریکہ مجھے ہٹارہا ہے اور دوسرا وہ اسلام کا نام استعمال کرنے لگ جاتا ہے۔ آج میں دوسرے معاملے یعنی ”ریاستِ مدینہ“ کا تجزیہ کرنا چاہتا ہوں کہ اس حوالے سے عملاً عمران خان اور ان کی حکومت کتنی سنجیدہ ہے ؟
ریاستِ مدینہ کی پہلی خصوصیت یہ تھی کہ وہاں حکمران عام شہری کی طرح زندگی گزارتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ریاستِ مدینہ کے حکمران سے ایک عام شہری سوال کرتا تھا کہ میری ایک چادر کے مقابلے میں آپ کی دوچادریں کیوں ہیں اور جواب میں حکمران کو اس شہری کو مطمئن کرنا پڑتا تھا لیکن یہاں کروڑوں لوگ چھت سے محروم ہیں جب کہ عمران خان بنی گالہ میں کئی سو کنال کے محل میں رہتے ہیں۔واضح رہے کہ عمربن عبدالعزیز کی دولت و ثروت ذاتی تھی لیکن حکمران بننے کے بعد انہوں نے ساری دولت لوگوں میں تقسیم کرکے ایک عام شہری کی زندگی اختیار کی۔ اسی طرح ریاستِِ مدینہ کے حکمران کبھی جھوٹ نہیں بولتے تھے لیکن عمران خان سچ کے قریب نہیں جاتے۔
عمران خان نے کہا تھا کہ وہ وزیراعظم ہائوس کو یونیورسٹی میں بدلیں گے اور گورنر ہاوسز گرائیں گے لیکن آج اسی وزیراعظم ہائوس میں رہتے ہیں اور سب گورنر ہائوسز سلامت ہیں۔ ریاستِ مدینہ میں احتساب کا آغاز حکمران کی ذات سے ہوتا تھا اور ہر جمعہ کو وہ اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرتا تھا لیکن عمران خان نے مخالفین کو انتقام کے نام پر اندر کیا جبکہ خود کو احتساب اور تنقید سے مبرا سمجھتے ہیں۔ریاستِ مدینہ کے حکمران کبھی یوٹرن لینے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے جبکہ عمران خان یوٹرن لینا اپنی سیاست کا فلسفہ سمجھتے ہیں۔ریاستِ مدینہ کے حکمران شائستگی، تہذیب، فقر، سادگی اور عاجزی کی علامت تھے۔ جبکہ یہاں انا ہی انا ہے۔ ریاستِ مدینہ کے حکمرانوں نے کبھی اپنے دشمن کو بھی غلط نام یا القابات سے نہیں پکارا کیونکہ قرآن کا یہ حکم ”ولاتنابزوبالالقاب“ ان کے پیش نظر تھا جبکہ عمران خان دن رات اپنے سیاسی اور صحافتی ناقدین کو گالی نما القابات سے پکارتے ہیں۔ علیٰ ہذ القیاس۔
ذاتی حوالوں کو ایک طرف رکھ کر اگر حکومتی اور عملی اقدامات کے حوالے سے دیکھا جائے تو بھی عمران خان کی حکومت میں ہر معاملے پرتوجہ دی گئی لیکن شریعت اور ریاستِ مدینہ کی طرف کوئی پیش قدمی نہیں کی گئی۔ مثلاً اگر عمران خان ریاستِ مدینہ کے مقدس لفظ کو ایک سیاسی حربے کے طور پر استعمال نہیں کررہے تھے اور واقعی اس کا قیام چاہتے تھے تو پھر وزارتوں کے اسکور کارڈ میں وزیرمذہبی امور پیرنورالحق قادری کو پہلے نمبر پر آنا چاہئے تھا لیکن اس میں تو وزیر مواصلات مراد سعید پہلے نمبر پر ہیں جبکہ وزیرمذہبی امور کا سرے سے نام ہی نہیں ہے۔ وہ 20سویں نمبر پربھی نہیں آئے۔
شریعت کے حوالے سے دوسرا اہم ادارہ اسلامی نظریاتی کونسل ہے لیکن عمران خان کے دور حکومت میں اسلامی نظریاتی کونسل کومذاق بنا دیا گیا ہے۔ اس کے اکثر اراکین سفارش اور سیاسی بنیادوں پر رُکن بنائے گئے جبکہ سات ماہرممبران نہ ہونے کی وجہ سے کئی ماہ سے اسلامی نظریاتی کونسل نامکمل ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہر کوئی اپنا اپنا ممبر لانا چاہتا ہے۔ اسی طرح فیڈرل شریعت کورٹ کسی دور میں اتنی عدم توجہی کاشکار نہ تھی جتنی کہ اس دور میں ہے۔ عمران خان اگرچہ خاتم النبیین ﷺ اور روحانیت کا لفظ صحیح ادا نہیں کرسکتے لیکن چند ماہ قبل سیاسی مقاصد کے لیے انہوں نے رحمت اللعالمین ﷺ اتھارٹی قائم کردی اور اس کے لیے آرڈیننس بھی جاری کردیا جس کے بارے میں سپریم کورٹ کا حکم آیا ہے کہ ہنگامی حالات کے بغیر آرڈیننس جاری کرنا غیرقانونی ہے۔بہرحال عمران خان نے اتھارٹی قائم کردی اور لاہور کی محفلوں کے اپنےایک ساتھی اعجاز اکرم کو نوازنے کے لیے اس کاچیئرمین بنا دیا۔
وہ ایک متنازعہ شخصیت ہیں لیکن تمام تر تنقید کو بالائے طاق رکھ کر انہیں لاکھوں روپے تنخواہ اور مراعات کے ساتھ چیئرمین بنا دیا گیا۔ تین ماہ میں اس اتھارٹی نے کوئی سرگرمی نہیں کی جبکہ دوسری طرف کرپشن کے قصے عام ہوگئے۔ ان تین ماہ میں اعجاز اکرم کا کسی نے کوئی عملی قدم دیکھا اور نہ ان کی زبان سے کوئی بات سنی۔ ہم نے خود انہیں اپنے ٹی وی پروگرام میں بلانے کے لیے کئی بار رابطے کئے لیکن جب بھی کال کرتے وہ کسی بیرونی ملک کا کہتے کہ میں سفر میں ہوں۔اب اس کا چیئرمین بدل دیا گیا گیا ہے۔
کئی ممبران الگ ہیں۔ کوئی سرگرمی ہمیں تاحال نظر نہیں آئی البتہ ایک نوٹیفیکیشن دیکھا ہے جس کی رو سے ان ممبران کو بھی ایم پی ون اسکیل کے تحت تنخواہیں اور مراعات ملیں گی۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان معاملات میں حکومت کتنی سنجیدہہے اور کس طرح ریاستِ مدینہ اور رحمت اللعالمین ﷺ کے مقدس ناموں کو سیاسی اور ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ ویسے بھی اگر کوئی وزیراعظم شریعت کے نفاذکے معاملے میں سنجیدہ ہو تو کیاوہ شہباز گل کو اپنا ترجمان اور شبلی فراز جیسے لوگوں کو اپنا وزیر رکھے گا؟
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔