Time 13 مارچ ، 2022
بلاگ

بھارت میں ریاستی انتخابات اور مودی کا مستقبل

بھارت میں پانچ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے چار ریاستوں میں میدان مار لیا ہے، جبکہ پنجاب میں عام آدمی پارٹی (آپ) نے کانگریس اور اکالی دل کا صفایا کردیا ہے۔ 

سب سے بڑا معرکہ اتر پردیش (جس کی آبادی پاکستان سے زیادہ ہے) میں ہوا جہاں یہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی مسلسل چوتھی فتح ہے اور اس کے ’’نئے ماڈل‘‘ یوگی ادتیاناتھ دوسری بار وزیراعلیٰ منتخب ہوئے ہیں۔ اترا کھنڈ میں بی جے پی (48 سیٹیں) نے کانگریس (18سیٹیں) کو شکست دی ہے۔ گووا میں 20 سیٹوں کے ساتھ بی جی پی نے کانگریس (12سیٹیں) کو ہرایا ہے اور مانی پور میں بی جے پی نے 31 سیٹوں کے ساتھ کانگرس (8) کو مات دی ہے۔ 

پنجاب میں بڑا مقابلہ دہلی کے چیف منسٹر کیجریوال کی عام آدمی پارٹی نے منقسم کانگریس اور اکالی دل کو بھاری اکثریت (92 سیٹیں) کے ساتھ دندان شکن شکست دی ہے۔ 

بھارتی سیاسی منظر نامے کو سمجھنے کے لیے پہلے اُتر پردیش کے انتخابی معرکے کا جائزہ لینا ضروری ہے جسے 2024 کے عام انتخابات سے پہلے سیمی فائنل قرار دیا جارہا تھا جس کے زبردست نتائج کی بنیاد پر وزیراعظم نریندر مودی نے آئندہ عام انتخابات میں اپنی کامیابی کا دعویٰ ابھی سے کردیا اور اس دعوے کو چیلنج کرنے والے کا دور دور تک نام و نشان نہیں۔

اتر پردیش میں وزیراعلیٰ یوگی ادتیاناتھ کے مقابلے میں سماج وادی پارٹی کے اکلیش یادیو اور ان کی اتحادی جاٹوں کی جماعت راشٹریہ لوک دل تھی۔ کہا یہ جارہا تھا کہ ہندتوااور ’’سب کی ترقی، سب کا ساتھ‘‘ کے نعروں پہ جو وسیع جاتی واداتحاد بی جے پی نے گزشتہ عام انتخابات (2019) اور صوبائی انتخابات (2017) میں بنایا تھا، شاید اس بار وہ منڈل کمیشن کی پیدا کردہ جاتی واد قوتوں کے ہاتھوں بکھر جائے گا اور مہنگائی، کورونا وبا، بیروزگاری اور کسان اندولن کے ہاتھوں بھارتیہ جنتا پارٹی کو سبکی اٹھانی پڑسکتی ہے لیکن یہ سب اندازے غلط ثابت ہوئے۔ 

مودی کا کرشمہ اور ادتیا ناتھ کی جوگی گورننس نے پانسہ پلٹ دیا۔403 اراکین کی اسمبلی میں کل ملا کر بی جے پی نے 273 نشستیں جیتیں اور 43.82 فیصد ووٹ لیے۔ جبکہ گزشتہ صوبائی انتخابات میں اس نے 325 سیٹیں اور 41.35فیصد ووٹ لیے تھے۔ اب کے ووٹ زیادہ پڑے سیٹیں کم رہیں۔ البتہ سماج وادی پارٹی نے گزشتہ الیکشن کے مقابلے میں 8.25فیصد زیادہ ووٹ اور 71 سیٹیں زیادہ لیں۔ 

یعنی بی جے پی کے 40,383,487 ووٹوں کے مقابلے میں 33,471,407 ووٹ حاصل کر کے 125 سیٹیں جیتی ہیں۔ کانگرس کو صرف 2.33 فیصد ووٹ ملے اور صرف دو سیٹیں ملیں۔ بی ایس پی کے ووٹ آدھے رہ کر 12.88 فیصد رہ گئے جس کا فائدہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہوا۔ اویسی کی مسلم جماعت کو دو لاکھ ووٹ بھی نہ پڑے۔ یوں مایا وتی (BSP) اور اویسی سپائلر کے طور پر سامنے آئے۔

یوپی کے الیکشن نے ہندتوا کی لہر کو مربوط و وسیع کیا ہے اور مودی کی ترقی اور فلاحی اسکیموں اور گورننس نے سیکولر قوتوں کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ ماہانہ راشن چھ ہزار روپے کیش اور مفت گیس سلنڈر نے شاید کام کردکھایا۔ کانگریس خاندانی سیاست اور ہندتوا کے مقابلے میں نرم رویے کے باعث قومی منظر سے پسپا ہوتی چلی گئی ہے۔ گو کہ آئندہ پانچ ریاستوں میں مقابلہ کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی ہی میں ہوگا۔

 چار ریاستوں کے نتائج نے بھارتیہ جنتا پارٹی اور مودی کی قیادت کو مستحکم کردیا ہے اور اس کے مقابل لڑکھڑا رہی سیکولر قوتیں کھڑی نہیں ہوسکیں گی۔ سخت گیر ہندتوا کے مقابلے میں نرم ہندتوا کی فکر چلنے والی نہیں اور سیکولر قوتوں خاص طور پر کانگریس کی اس بارے ہندو مصالحت پسندی کا دیوالیہ پٹ گیا ہے۔ اب اگر نریندر مودی 2029 تک بھارت کے وزیراعظم رہ سکتے ہیں تو ان کے جلو میں یوگی ادتیا ناتھ آئندہ لیڈر کے طور پر اُبھر کر سامنے آرہے ہیں۔

جن انتخابی نتائج پہ کوئی حیرانی نہیں، وہ پنجاب کے انتخابات میں جہاں عام آدمی پارٹی نے جھاڑو پھیر دی جو اس کا انتخابی نشان بھی ہے۔ کرپشن کے خلاف چلائی گئی انا ہزارے کی تحریک کے بطن سے پھوٹنے والی عام آدمی پارٹی اور اس کے سربراہ اروند کیجریوال دہلی کی ریاست میں کامیاب ہوکر ابھرے تھے اور اس کے اثرات پنجاب، ہریانہ، گووا اور دوسری ریاستوں تک پھیل گئے۔ 

گو کہ یہ گزشتہ عام انتخابات میں دہلی سے لوک سبھا کی ساری نشستیں ہار گئی تھی، لیکن بعدازاں صوبائی انتخابات میں کیجریوال پھر سے کامیاب ہوگئے تھے۔ پنجاب کے گزشتہ الیکشن میں بھی عام آدمی پارٹی نے بہت ووٹ لیے تھے، لیکن اس بار اس نے تین چوتھائی سیٹیں جیت کر کانگریس اور اکالی دل کو نکال باہر کیا ہے۔ عام آدمی پارٹی نے 117 سیٹوں میں سے 92 سیٹیں لیں، جبکہ کانگریس نے 18 اور اکالی دل (SAD) نے 3 اور بی جے پی نے صرف 2 سیٹیں لی ہیں۔ پنجاب میں یہ بڑی تبدیلی نئے ابھرتے ہوئے درمیانے طبقے کی ہے جس کا سکھ خالصتان اور سکھ علیحدگی پسندی سے کوئی تعلق نہیں۔ عام آدمی پارٹی ایک غیر مذہبی جماعت ہے جو ابھرتی ہوئی نئی نسل اور آزاد سرمایہ داری کی قائل ہے۔ 

کسان اندولن کی حمایت سے بھی اسے بہت فائدہ ملا اور ممکن ہے کہ یہ ہریانہ اور ہماچل میں بھی کامیاب ہوجائے، پنجاب میں کانگریس میں خوفناک دھڑے بندی اور کیپٹن امریندر سنگھ اور انہیں چیلنج کرنے والے نوجوت سنگھ سدھو بھی بری طرح سے ہار گئے۔ پنجاب میں جیت کے بعد مغربی بنگال میں ترینا مل کانگریس (TMC) کی لیڈر ممتا بینرجی اور پنجاب کے چیف منسٹر اروند کیجریوال اب قومی سطح پر مودی کو چیلنج کرنے کے لیے پرتول رہے ہیں۔ جبکہ گاندھی خاندان پر کانگریس کی قیادت چھوڑنے کے لیے باغی گروپ متحرک ہوگیا ہے۔ 

یہ نہیں لگتا کہ اگلے دو برس میں بھارتی اپوزیشن نریندرمودی کے خلاف کوئی بڑا موثر متبادل لاسکے گی۔ اگلے سات برس کے ممکنہ اقتدار کے دوران راشٹریہ سیوک سنگھ اور اس کے ہندتوا کے ایجنڈے اور بھارت کو ایک ہندو راشٹریہ بنانے کی طرف پیشرفت ہوگی اور اس کے سامنے سیکولر قوتیں بھی میدان میں اتریں گی۔ دریں اثنا پاکستان کے پاس اب کوئی چارہ نہیں کہ وہ وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ بات چیت کے دروازے کھولے کہ اب یہی آپشن ہے۔ بھارتی عوام جانیں اور مودی جانے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔