13 مارچ ، 2022
جب چوہدری شجاعت جیسے زیرک سیاست دان کو سمجھ آجائے کہ چھوٹنے والی ٹرین ہی منزل کو جارہی ہے اور فضل الرحمان اور زرداری صاحب سے زنجیر کھینچ کر سوار کروانے کی درخواست کریں۔
برتھ سیٹ کا آپشن نہ بچنے پر سامان پر بیٹھ کر سفر پر رضامندی کا اظہار ہو تو سمجھ جائیں یہ آخری ٹرین ہے۔
ایم کیوایم کا مخمصہ شاید اس صدی کی سب سے مشکل پہیلی کی بُوجھ ہے۔ کہ ہم سوار ہوں یا ٹرین مس کریں کیونکہ دونوں صورتوں میں ہاتھ کچھ نہیں آرہا۔ منزل نہیں رہنما چاہئے جیسے نعرے ماضی میں شہر کی دیواروں پر درج رہے۔ کیا پتہ تھا آنے والے مستقبل میں یہ ایک تلخ حقیقت کے طور پر پیشانی پر کندہ ہوجائے گی۔
ایم کیو ایم میں اس وقت لیڈر شپ اور فیصلہ سازی کا جتنا فقدان ہے شاید پہلے کبھی نہیں تھا۔ صحیح یا غلط دونوں صورتوں میں فیصلہ وقت پر لیا جانا ہمیشہ اہم ترین ہوتا ہے۔ ایم کیو ایم کا پی ٹی آئی سے اتحاد ایک جبری شادی کے سوا کچھ نہ تھا جس میں دونوں فریقین کو خوش رہنے کی ایکٹنگ کرنی تھی۔
یاد تو ہوگا کہ 2018 کے الیکشن کےبعد ایم کیو ایم نے الزام لگایا تھا کہ ان کی نشستیں چھین کر پی ٹی آئی کو دلوائی گئی ہیں۔
لیکن کب تک۔۔ کوٹہ سسٹم کی مخالف جماعت ۔۔ کم از کم مختص کوٹے جتنا حصہ ہی دے دو اور مردم شماری کیسے اہم مطالبات منوانے میں پچھلے ساڑھےتین سال سے کوشاں رہی اور آسرے وعدوں کے سوا کچھ حاصل نہ کرسکی۔ مستقبل میں کیا ملے گا ؟نئے سفر کا آغاز کیا جائے یا پرانی بس میں ہی بیٹھنے پر اکتفا کیا جائے ؟ یہ دونوں ایسے سوال ہیں جس کا جواب فی الحال ایم کیو ایم کے پاس نہیں۔
اصل مسئلہ خان صاحب کا ہے۔ کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ اصل ناراضی عمران خان سے نہیں سائیں بزدار سے ہے اور عمران خان آخری حد تک بزدار صاحب کو سینے سے لگائے رکھنے پر اصرار کر رہے۔ حالانکہ وہ دوست سمجھتے ہیں کہ شاید بزدار کو تبدیل کرکے عمران خان اپنے خلاف ناراضی کو ختم نہیں تو بہت حد تک کم کرسکتے ہیں۔ مگر وہ کپتان ہی کیا جو جھک جائے۔
کچھ واقفان حال تو دوبدو لڑائی تک کی پیش گوئی کررہے ہیں۔ اللہ نہ کرے کہ ایسی نوبت آئے۔ شیخ رشیدصاحب کے “پلاننگ دس سال کی ہوتی ہے “کے وعدے یاد دلانے سے لے کر دیگر وزیروں اور میڈیائی ہمنواؤں کے اپوزیشن رہنماؤں کے ملکی وقار سے متعلق ماضی کے تلخ بیانات یاد دلا کر عار دلانے کی کوششوں تک۔۔ کچھ بھی امپائر کی نیوٹریلیٹی پر اثر انداز نہیں ہوپا رہا۔
اعصاب کا کھیل ۔۔ دشوار تر کی حدوں سے آگے بڑھ کر جان لیوا حد تک خطرناک ہوچکا۔ پلان کچھ ایسا دکھائی دے رہا ہےکہ روز کچھ نئے امکانات کا در کھولا جائے۔ کچھ ساتھیوں کے داغ مفارقت کی خبریں آئیں۔ مخالفین کے لیے پچ سازگار تر ہونے کی سرگوشیاں ہوں۔ جواب میں عمران خان کا لہجہ سخت سے سخت تر اور غصہ اشتعال میں بدلتا جائے اور زیادہ زور سے بال کرانے کی کوشش میں کپتان غلطی کرجائے۔ نوبال کرادے اور مخالفین کو فری ہٹ انعام میں مل جائے ۔
فری ہٹ میں بولر بلے باز کے رحم کو کرم پر ہوتا ہے اور اس کے پاس آؤٹ کرنے کا چانس بالکل نہیں ہوتا اور آخری اوور میں نو بال کا مطلب گیم اوور!