17 مارچ ، 2022
ایک روز قبل ایک ٹی وی انٹرویو میں چوہدری پرویز الٰہی نے وہ کچھ کہا جس کی توقع نہیں تھی لیکن آج اُنہوں نے اُس کے بالکل برعکس ایک بیان جاری کیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سارا سیاسی کھیل کافی گھمبیر ہے اور کس وقت کیا ہو کسی کو خبر نہیں۔
کل تک صورت حال بالکل مختلف اور حکومت کے خلاف تھی لیکن آج معاملات تبدیل ہونا شروع ہو گئے۔ گزشتہ دو دنوں سے مجھے حکومتی ذمہ دار کہہ رہے تھے کہ بس ایک دو دن انتظار کر لیں دیکھیے گا سب کچھ بدلنا شروع ہو جائے گا۔
آج پہلے پرویز الٰہی کا بیان آیا کہ وزیر اعظم ایماندار ہیں اور اُن کی نیت اچھی ہے، حکومت چھوڑی ہے نہ اپوزیشن جوائن کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی وزیر داخلہ شیخ رشید کا بیان بھی آ گیا جس میں اُنہوں نے کہا کہ آج ہی اتحادی حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان شروع کر دیں گے، ایم کیو ایم بھی عمران خان کا ساتھ دے گی۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ سیاست سے اسٹیبلشمنٹ دور ہے۔
ایک روز قبل پرویز الٰہی نے کہا کہ خان صاحب نے سب سے ہاتھ کیا، ہماری طرف سے وفاداری، اُن کی طرف سے دھمکیاں ملیں، مونس الٰہی کو بھی نیب سے گرفتار کروانے کا حکم دیا۔ پرویز الٰہی نے یہ بھی کہا کہ بچہ کیسے سیکھے گا،اگر اُسے نیچے اتارو گے تو چلنا سیکھے گا، نیپیاں ہی بدلتے رہو گے، پشاور سے کوئی مدد نہیں آ رہی، اس وقت اسٹیبلشمنٹ کا کوئی عمل دخل نہیں، فوج نے کہا ہم نیوٹرل ہیں تو خان صاحب نے کہا کہ نیوٹرل تو جانور ہوتے ہیں۔
پرویز الٰہی نے یہ بھی کہا کہ ہمارے ایم این اے کو خان صاحب نے کہا کہ’’ اُن‘‘ کی مان رہا ہوں اس لیے پرفارم نہیں کیا۔ چوہدری پرویز الٰہی کا ٹی وی انٹرویو بہت بولڈ تھا، اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ق لیگ سمیت تمام اتحادیوں کا سو فیصد جھکاؤ اپوزیشن کی طرف ہے۔ اس انٹرویو کی بنیاد پر یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ اب عمران خان کو حکومت کے بچنے کا کوئی چانس نہیں کیوں کہ ق لیگ اور چوہدری اگر ایسی بات کرتے ہیں تو اُس کا اثر دوسرے اتحادیوں کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کے ناراض اراکین اسمبلی پر بھی بہت ہو گا اور سمجھا یہ جائے گا کہ جو چوہدری برادران کہہ رہے ہیں وہ دراصل طاقتور اداروں کی منشاء ہے۔
اب جبکہ چوہدری پرویز الٰہی نے تازہ بیان دیا جو اُن کے ایک روز پہلے کے ٹی وی انٹرویو سے بالکل مختلف بھی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ چوہدریوں کا یو ٹرن ہے تو غلط نہ ہو گا۔ اس لیے جو بھی تجزیہ پرویز الٰہی صاحب کے ایک روز قبل کے بیان کی بنیاد پر کیا جائے تو وہ درست نہ ہو گا۔
تازہ بیان سے ثابت ہوا کہ ابھی حکومت کے رہنے یا جانے کے متعلق کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ گیم اون ہے! میں بہت پہلے سے یہ بات کر رہا ہوں کہ عمران خان حکومت کے جانے یا بچنے کے متعلق جو ہو گا اُس کا تعلق ق لیگ یعنی چوہدری برادارن کے فیصلہ سے ہو گا۔
چوہدریوں کے فیصلے کو اشارہ سمجھا جائے گااور اسی بنیاد پر دوسرے اتحادی بھی وہی فیصلہ کریں گے جو ق لیگ کا ہو گا۔اپوزیشن ق لیگ کو پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ دینے پر تیار ہے لیکن اس کے باوجود فیصلہ سامنے نہیں آ رہا۔
ایک دن قبل ق لیگ کی قیادت کے ساتھ جس نے بھی بات کی، وہ عمران خان حکومت کے خلاف بھرے ہوے نظر آئے۔ اگر چہ چوہدری برادارن نے یہ نہیں کہا کہ ہم حکومت چھوڑ رہے ہیں لیکن تاثر پیدا ہوا کہ اب عمران خان حکومت چلنے والی نہیں اور یہ کہ ق لیگ کا ممکنہ فیصلہ یہی ہو گا کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ کھڑی ہو گی اور عدم اعتماد کو کامیاب بنائے گی۔
اب کل ق لیگ کیا کہے گی اس پر بھی نظر رکھنا ہو گی کیونکہ یہ بھی نہیں کہ جو آج کہہ دیا وہی فائنل ہے۔ یہ تو ایک کھیل ہے اور کھیل بھی ایسا کہ بہت دفعہ کھیل میں شامل کھلاڑیوں کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اگلا قدم اُن کا کیا ہو گا۔
پرویز الٰہی نے اپنے ٹی وی انٹرویو میں یہ بھی گواہی دی تھی کہ اپوزیشن کے پاس 172 سے زیادہ، بلکہ کسی کی سوچ سے بھی زیادہ لوگ ہیں۔ نہیں معلوم اب اس بارے میں وہ کیا کہیں گے۔ کہیں اپوزیشن کے ساتھ کوئی ہاتھ تو نہیں ہو گیا!
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)