بلاگ

عدم اعتماد، فیصلے میں تاخیر سے ایم کیو ایم اور کراچی کو نقصان ہوگا

موجودہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا نمبر کھیل جاری ہے اور جوں جوں دن گزررہا ہے حکومت اور اپوزیشن دونوں اپنی اپنی کامیابیوں کے دعویٰ کررہے ہیں موجودہ صورتحال میں اپوزیشن کے دعویٰ کے مطابق پی ٹی آئی کے دو درجن سے زائد رکن پارلیمنٹ ان کے ساتھ ہیں اور اب ان کے پاس 172سے زائد ارکان پارلیمنٹ کی حمایت حاصل ہے۔

 تاہم ابھی تک متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کی جانب سے حکومت یا اپوزیشن میں سے کسی کی بھی واضح حمایت کے اعلان نہ کرنے کے باعث ایم کیو ایم (پاکستان) کے سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ فیصلے میں تاخیر سے نہ صرف ایم کیو ایم (پاکستان) کو سیاسی نقصان پہنچے گا بلکہ اس سے زیادہ نقصان کراچی کے عوام کو بھی ہوگا۔

 پیپلزپارٹی کے ساتھ کامیاب مذاکرات اور پیپلزپارٹی کی طرف سے ایم کیو ایم کے تمام مطالبات کو ماننے کے باوجود ایم کیوایم کے فیصلے میں تاخیر سے کہیں ایسا نہ ہو کہ اپوزیشن کو ایم کیو ایم کی ضرورت ہی نہ رہے۔

 جس تیزی سےصورتحال اپوزیشن جماعتوں کے لیے موافق ہوتی جارہی ہے اس سے لگتا ہے کہ اگر ایم کیو ایم (پاکستان) نے فیصلہ کرنے میں مزید تاخیر کی تو ایسانہ ہو کہ اپوزیشن خاص کر پیپلزپارٹی ایم کیو ایم(پاکستان) کےساتھ اپنے فیصلے پر نظرثانی نہ کرلے۔

 ایم کیو ایم(پاکستان ) کے سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ فیصلے میں تاخیر سے لگتا ہے کہ ایم کیوایم کی اعلیٰ قیادت میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت کم ہے ۔ ایم کیو ایم (پاکستان) کے پاس اس وقت قومی اسمبلی کے 7؍ ارکان ہیں اور وہ اس وقت موجودہ حکومت کے اتحادی ہیں۔

 ایم کیو ایم اگر اپوزیشن کا ساتھ دیتی ہے اور عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورتحال میں ایم کیو ایم کو وفاق اور سندھ دونوں حکومتوں میں شامل ہونے کا موقع ملے گا اوراگر ایم کیو ایم سندھ حکومت میں شامل ہوتی ہے تو کراچی کی بہتری کے لیے کام کرسکے گی۔ 

جو گزشتہ کئی برسوں سے لاوارث ہے کراچی کا انفرااسٹرکچر تباہ ، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، اسٹریٹ کرائم میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ پانی، بجلی اور گیس کی شدیدقلت ہے شہر کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہوتا جارہا ہے اور پیپلزپارٹی کی حکومت کراچی کے مسائل کو حل کرنے میں زیادہ سنجیدہ نظر نہیں آتی ایسے میں ایم کیو ایم کی سندھ حکومت میں شمولیت امید کی ایک کرن ثابت ہوسکتی ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔