23 مارچ ، 2022
درویش کو ہرگز علم کا دعویٰ نہیں بلکہ میری رائے میں ایسا دعویٰ بذاتِ خود اپنی ہی تردید کے مترادف ہے۔ سچ کی جستجو، اسے بیان کرنے اور پھر اس پر قائم رہنے کے لیے جس استقامت کی ضرورت ہوتی ہے، دوسروں میں اس کے آثار دیکھ کر رشک ضرور آتا ہے لیکن اپنی محرومی کا بہرحال ادراک ہے۔
بہادری، بالخصوص ذہنی بہادری یقیناً ایک گراں قدر انسانی خوبی ہے لیکن بہادری کی بھاری قیمت دیکھتے ہوئے آپ کے نیاز مند نے اس خوبی سے بھی مناسب فاصلہ رکھنے کے لیے متعدد نیم فلسفیانہ حیلے دریافت کر رکھے ہیں۔ ممکن ہے آپ کو حیرت ہو کہ اچھے خاصے بیٹھے بٹھائے آج خود الزامی کے گدلے تالاب میں اترنے کی کیا سوجھی؟ قصہ یہ ہے کہ اب عمران خان کی حکومت کا چل چلاؤ ہے۔ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو یا ناکام، کمرہ نمبر ایک سے فیصلہ برآمد ہو یا تاویل آئے، کوئی غیر جانبداری کی کشتی گھاٹ پر باندھے یا شمال کی مچان پر گھات میں بیٹھا رہے، جولائی 2018کا بندوبست عملی طور پر اپنے انجام کو پہنچ چکا۔ ہماری تاریخ میں کسی حکومت کی رُخصتی کا مرحلہ آئے تو علاوہ دیگر الزامات کے ایک تکمہ فسطائیت کا بھی جڑ دیا جاتا ہے۔ ان دنوں یہ خطاب عمران خان کے حصے میں آ رہا ہے۔
عمران خان کے فسطائی ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنے سے پہلے فسطائیت کی چند بنیادی خصوصیات پر نظر ڈالنا بہتر ہوگا۔ فسطائیت دلیل نہیں، طاقت کے اصول پر یقین رکھتی ہے۔ فسطائیت مساوات اور رواداری کی بجائے اونچ نیچ اور تفرقے پر اپنی سیاست کی بنیاد رکھتی ہے۔ فسطائی حکومت پُرکشش مگر معنی سے خالی نعروں کی مدد سے تنگ نظرقوم پرستی کو ہوا دیتی ہے۔ ریاستِ مدینہ کی اصطلاح کیسی ہی مقدس کیوں نہ ہو، تحریکِ انصاف کے منشور میں اس کا کہیں ذکر نہیں۔ 10نومبر 2019کو عمران خان نے اسلام آباد میں خود اقرار کیا کہ ’الیکشن سے پہلے انہوں نے کبھی ریاستِ مدینہ کا نعرہ نہیں لگایا تھا‘۔
گزشتہ برسوں میں ہم نے ترانوں کی پیداوار میں ایسی تندہی دکھائی ہے کہ عنقریب ’یکساں نصاب‘ میں لکھا جائے گا کہ ’اقبال نے پاکستان کا جو خواب دیکھا اسے ساحر علی بگا نے ہائبرڈ وار فیئر کی موسیقی دے کر زندہ و جاوید کر دیا‘۔ وہ لال اور سبز مفلر تو آپ کو یاد ہوں گے جو 2018میں درجنوں ’باضمیر‘ سیاست دانوں کے گلے میں ڈالے گئے۔ فسطائی حکومت انسانی حقوق اور شہری آزادیوں میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتی۔ فسطائی ذہن کے مطابق انسانی حقوق جیسے چونچلوں سے قومی عظمت کا راستہ کھوٹا ہوتا ہے۔
فسطائی حکومت کو اپنے جواز کے لیے ایک دشمن چاہیے ہوتا ہے جسے ماضی، حال اور مستقبل کی تمام ناکامیوں کا ذمہ دار قرار دیا جا سکے۔ ہٹلر نے اس مقصد کے لیے اہلِ یہود کا انتخاب کیا۔ اگرچہ ہمارے پاس بھی بطور ہدف ایک چھوٹی سی اقلیت میسر ہے لیکن عمران خان نے اپنی بےپناہ بصیرت سے کام لے کر قوم میں بہت سے چور اور ڈاکو دریافت کئے جو کرپشن، وطن فروشی اور غیر ملکی سازش سمیت تمام جرائم کے مرتکب ہو رہےہیں۔ فسطائی حکومت عوام کے بنیادی مسائل پر توجہ دینے کی بجائے عسکری طاقت اور اسلحے کے حصول پر زیادہ سے زیادہ وسائل خرچ کرتی ہے۔ فسطائی حکومت مردانہ بالادستی میں مکمل یقین رکھتی ہے۔ اس کے نتیجے میں آدھی آبادی کی بربنائے تعصب حمایت اور باقی نصف آبادی کی بزور بازو اطاعت میسر آتی ہے۔ عورت اور مرد کی برابری ایک طرف، فسطائیت سرے سے انسانی احترام ہی میں یقین نہیں رکھتی۔
فسطائی حکومت کو صحافت کی آزادی قبول نہیں ہوتی۔ سنسر شپ کے قوانین اور پالیسیوں کے علاوہ صحافیوں پر تشدد جیسے حربے بھی آزمائے جاتے ہیں۔ فسطائیت صحافت کو پروپیگنڈے کا آلۂ کار سمجھتی ہے۔ فسطائی حکومت اپنے عوام کو ہمہ وقت یقین دلاتی ہے کہ بیرونی دنیا اس کی شاندار کامیابیوں سے خائف ہو کر سازشیں کر رہی ہے۔ اس کا مقصد عوام کو یہ یقین دلانا ہوتا ہے کہ فسطائی آمریت ہی ان کا تحفظ کر سکتی ہے۔
فسطائیت رائے عامہ کو متاثر کرنے کے لیے مذہبی اصطلاحات اور علامات استعمال کرتی ہے۔ حکومتی رہنماؤں کی ذاتی زندگی سے قطع نظر، مذہبیت کی نمائش فسطائیت کے لیے مفید حربہ ہوتی ہے۔ فسطائی حکومت صنعتی اور تجارتی اشرافیہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے باہمی مفادات پر مبنی ایک ایسا نظام تشکیل دیتی ہے جس میں ایک مخصوص طبقے کی دولت میں بےتحاشا اضافہ ہوتا ہے جب کہ محنت کش طبقہ کی معاشی بدحالی ناگزیر ہو جاتی ہے۔
فسطائیت کو اہلِ دانش، تدریسی آزادی اور فنونِ عالیہ سے خاص عداوت ہوتی ہے۔ فسطائیت اپنے تسلسل کے لیے عوام کی عمومی جہالت اور عامیانہ دلچسپیوں پر بھروسہ کرتی ہے۔ فسطائیت قانون کو انصاف فراہم کرنے کی بجائے سزائیں دینے اور دہشت پھیلانے کا ذریعہ سمجھتی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے سیاسی مخالفین کو کچلنے اور عوام میں دہشت پھیلانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ فسطائیت میں اقربا پروری اور بدعنوانی اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ حکومت کی جوابدہی کو انتشار پسندی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ فسطائی ذہن انتخابات کو حکومت تک پہنچنے کا ایک ذریعہ سمجھتا ہے، شفاف انتخابات اور دستوری تسلسل میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔
درویش سمجھتا ہے کہ عمران خان فسطائی نہیں ہیں اور ان کی حکومت کو فسطائیت کہنا مبالغہ آرائی ہے۔ اس کی وجہ عمران خان کی جمہوریت پسندی نہیں۔ درحقیقت ہماری قوم کے اجزائے ترکیبی میں فسطائیت کی گنجائش ہی نہیں۔ ہمارے معاشی وسائل محدود اور پیداواری بنیاد کمزور ہے۔ ہمارا ملک بیرونی امداد کا محتاج ہے۔ تحریک انصاف ملک میں موجود طاقتور سیاسی گروہوں پر اپنی برتری مسلط کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ پاکستان میں اقتدار کے وسائل پر قابض ادارے عمران خان کے عزائم سے کہیں زیادہ باوسیلہ اور منظم ہیں۔ آمریت کی مزاحمت ہماری جمہوری تاریخ کا ایک مستقل دھارا ہے۔ عمران خان فسطائیت کی آرزو رکھتے ہیں، فسطائیت کے لیے درکار وسائل سے محروم ہیں۔ فسطائیت کی اٹلس پر عمران خان کا وہی مقام ہے جو اسٹالن اور ہٹلر کے مقابلے میں مسولینی کو دیا جاتا ہے۔
کچھ لوگ خضر کے ساتھ چلے تھے دریا کرنے پار
وہ پانی میں ڈوب گئے اور میں حیرانی میں
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔