24 مارچ ، 2022
2018 میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پہلی بار وفاق میں قائم ہوئی اور 22 سالہ جدوجہد کے بعد عمران خان پاکستان کے 22 ویں وزیراعظم بنے۔
لیکن تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے فوری بعد ہی اپوزیشن نے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے کر مسترد کردیا اور اس کیخلاف احتجاج شروع کیا۔ اس احتجاج میں روز اول سے مولانا فضل الرحمان سب سے زیادہ متحرک رہے۔
عمران خان کی حکومت کو اب تقریباً 4 سال ہونے کو ہیں، اس دوران اپوزیشن نے مختلف حربے اپنائے جن سے عمران خان کی حکومت کو ختم کیا جاسکے لیکن انہیں اب تک کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔اپوزیشن کی حکومت مخالف مہم میں جان اس وقت پڑی جب نیب کی پیشیاں بھگتنے والے سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری نے اپنی کوششوں کا وزن اپوزیشن کے پلڑے میں ڈالا اور یکایک حالات اپوزیشن کے حق میں اور عمران خان کے خلاف ہوتے گئے۔
آصف زرداری نے ایسا کیا جادو کیا کہ ایک وقت میں بے جان نظر آنے والی اپوزیشن اتنی مضبوط ہوگئی کہ عمران خان جیسے مقبول رہنما کی پوزیشن کمزور نظر آنے لگی؟ وزیراعظم اور حکومتی ارکان کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے نوٹوں کی بوریوں کے منہ کھولے اور پی ٹی آئی کے ارکان کو خریدا جبکہ اپوزیشن کہتی ہے کہ ارکان ضمیر کی آواز پر ان کے ساتھ ہیں۔ حقیقت کیا ہے یہ فی الحال راز ہے۔
بہر حال اب صورتحال یہ ہے کہ اپوزیشن نے وزیراعظم عمران خان کو عہدے سے ہٹانے کا آئینی راستہ اپناتے ہوئے ان کیخلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد جمع کرادی ہے۔
اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس وزیراعظم کیخلاف ووٹ دینے والے اراکین کی تعداد حکومت کے حامیوں سے زیادہ ہے اور اس بار وزیراعظم عمران خان نہیں بچ سکیں گے۔
تحریک عدم اعتماد میں نمبرز گیم اور اس کے طریقہ کار پر ہم اپنے آنے والے مضامین میں بات کریں گے۔ آج ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ اب چونکہ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد پیش کردی ہے تو وزیراعظم عمران خان کے پاس کیا آپشنز باقی رہ گئے ہیں؟
اپوزیشن روز اول سے مطالبہ کر رہی ہے کہ وزیراعظم عمران خان خود مستعفی ہوجائیں اور نئے شفاف الیکشن کرائے جائیں لیکن جب وزیراعظم نے ان کے مطالبے پر عمل نہیں کیا تو اپوزیشن تحریک عدم اعتماد لے آئی۔
تحریک عدم اعتماد جمع ہونے سے قبل وزیراعظم عمران خان کے پاس یہ آپشن موجود تھا کہ وہ صدر مملکت کو سفارش کرتے کہ اسمبلی تحلیل کردی جائے اور نئے انتخابات کروا کر عوام سے تازہ مینڈیٹ حاصل کرلیتے۔ ممکن تھا وہ پہلے سے بھاری اکثریت سے کامیاب ہوکر حکومت میں واپس آجاتےلیکن اب وہ یہ آپشن استعمال نہیں کرسکتے۔
استعفے کا آپشن
تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے بعد وزیراعظم عمران خان کے پاس یہ آپشن ضرور موجود ہے کہ وہ عدم اعتماد پر ووٹنگ کی نوبت ہی نہ آنے دیں اور خود ہی وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیں۔ اگر عمران خان یہ آپشن استعمال کرتے ہیں تو انہیں صدر مملکت کو لکھنا ہوگا کہ وہ وزارت عظمیٰ کے عہدے سے دستبردار ہورہے ہیں جس کے بعد صدر مملکت قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرکے نئے وزیراعظم کیلئے رائے شماری کرائیں گے اور نیا وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد اس کی صوابدید ہوگی کہ وہ حکومت کی بقیہ مدت مکمل کرتا ہے یا نئے الیکشن کی طرف جاتا ہے۔
موجودہ صورتحال میں وزیراعظم عمران خان کے پاس آخری آپشن یہ ہے کہ وہ اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونے دیں اور اس کا جو بھی نتیجہ ہو اسے قبول کریں۔ ارکان قومی اسمبلی کی اکثریت اگر ان کے حق میں ووٹ دے تو وہ وزارت عظمیٰ پر براجمان رہیں ورنہ خاموشی سے عہدے سے الگ ہوجائیں۔
اس تمام تر سیاسی صورتحال پر وزیراعظم عمران خان اور ان کے قریبی وزراء بار ہا یہ کہہ چکے ہیں کہ عمران خان آخری گیند تک مقابلہ کریں گے۔ وزیراعظم کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ووٹنگ والے دن اپوزیشن کو پھر شرمندگی کا سامنا ہوگا اور انہیں اعتماد کا ووٹ مل جائے گاجس کے بعد اپوزیشن کی تحریک ہمیشہ کیلئے دفن ہوجائے گی۔
وزیراعظم عمران خان کا تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کی حد تک جانا ایک بڑا فیصلہ ہوگا اور اگر وہ ایسا چاہتے ہیں تو ممکن ہے انہیں اپنی جیت کا مکمل یقین ہو لیکن اگر اس کا نتیجہ عمران خان کی خواہش کے برعکس نکلا تو وہ پاکستان کی تاریخ میں پہلے وزیراعظم ہوں گے جنہیں تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں عہدہ چھوڑنا ہوگا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔