28 مارچ ، 2022
آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوتی تو اعتماد کا ووٹ شمار ہوگا۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بینچ صدارتی ریفرنس کی سماعت کر رہا ہے۔
صدارتی ریفرنس اورسپریم کورٹ بارکونسل کی درخواست پر سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے سندھ ہاؤس حملے کا معاملہ اٹھا دیا۔
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ایف آئی آر میں انسداد دہشتگردی کی دفعات شامل نہیں کی گئیں، اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیا ہم اب ایف ائی آر پر سماعت شروع کردیں؟ آپ متعلقہ فورم پر جا کر شکایت کریں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کل تک سندھ ہاؤس واقعے کے ذمہ داران کو گرفتار کرکے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔
بعد ازاں صدارتی ریفرنس پر سماعت میں اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مقننہ نے امیدواروں سے بیان حلفی لینا ضروری قرار نہیں دیا، عدالت نے انتخابات شفاف بنانےکیلئے امیدواروں کوبیان حلفی دینا ضروری قرار دیا، جو کام مقننہ سے مسنگ ہو وہ عدالت کراسکتی ہے۔
تیر ووٹرز کی توقعات کے بجائے کہیں اور جالگے تو اعتماد ٹوٹ جاتا ہے: جسٹس اعجازالاحسن
اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کتابیں کھولنے سے پہلے اراکین کے کردار کی شقوں کو دیکھنا ہے جب کہ جسٹس اعجاز کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63 اے کو تاحیات نااہلی کی شق سے کیسے جوڑ سکتے ہیں، اراکین اعتماد توڑ کر کیا خیانت کررہے ہیں؟
جسٹس اعجاز نے سوال کیا کہ اعتماد کے تعلق کی بنیاد کیا ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھاکہ ووٹرزکا اعتماد اور جماعت کے منشور سے منتخب ہونا اس اعتماد کی بنیاد ہے، ایک دفعہ ووٹر ووٹ دے تو 5 سال کے لیے نمائندہ منتخب ہوتا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ ایک بار تیر کمان سے نکل گیا تو واپس نہیں آسکتا، تیر ووٹرز کی توقعات کے بجائے کہیں اور جالگے تو اعتماد ٹوٹ جاتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا سوال یہ ہے کہ کتنے عرصے کی نااہلی ہونی چاہیے، اگر ہم فرض کریں کہ انحراف پر نااہلی ہی ہونی چاہیے تو کتنی ہو؟ نااہلی 3 یا 5 سال کی ہوتی ہے، اگر قانونی بددیانتی پر بات ہو تو ایک مزید بحث شروع ہو جائے گی۔
سیاسی رہنما ججز کو سیاست میں گھسیٹنے سے گریز کریں: چیف جسٹس
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ انحراف اور نااہلی کی شقوں کی زبان ایک ہی ہوتی ہے، تو کیا انحراف اور نااہلی کی شقوں پر قانون سازی نہیں ہونی چاہیے؟ جن کیسز کا حوالہ دیا جا رہا ہے وہ انتخابات سے قبل کاغذات نامزدگی سے متعلق ہیں، موجودہ کیس منتخب ہونے کے بعد انحراف کا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ انحراف سے متعلق الیکشن قوانین موجود ہیں، سب قوانین موجود ہیں تو سپریم کورٹ کیوں آئے ہیں؟ اگر کوئی انحراف کرتا ہے تو آپ ہم سے مزید کیا چاہتے ہیں؟
جسٹس مظہرعالم نے کہا کہ عدالت کے سوالوں کا کیا تاثر دیا جارہا ہے؟ وزیراعظم نے ہمارے سوالات کا حوالہ دیا، آپ ججز کو اپنے ساتھ ملا رہے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججز کے سوالات پر اخبارات میں ایسا تاثر دیا گیا، اخبار نے سرخی لگائی کہ سپریم کورٹ نے کہا ریفرنس واپس بھیجیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعتوں کو سیاسی بیانات دینے سے منع نہیں کر سکتے، سیاسی رہنما ججز کو سیاست میں گھسیٹنے سے گریز کریں، سیاسی بیانات سے عدالت پر اثرانداز ہونے کی کوشش نہ کریں۔
آپ نااہلی کی مدت کیسے مقرر کر سکتے ہیں؟ جسٹس مظہر کا اٹارنی جنرل سے سوال
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا وزیراعظم کو غیرذمہ دارانہ بیانات سے گریز نہیں کرنا چاہیے؟ جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا ڈی سیٹ ہونے والا دوبارہ ضمنی الیکشن لڑ سکتا ہے؟
جسٹس مظہرعالم میاں خیل نے پوچھا کہ آپ نااہلی کی مدت کیسے مقرر کر سکتے ہیں؟
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا ہم توقع کر رہے ہیں کہ آج آپ دلائل مکمل کرلیں گے، جس پر خالد جاوید خان نے کہا کہ پارلیمنٹ کی کارروائی کا تعلق عدالت کی سماعت سے نہیں، آج شاید دلائل مکمل نہ کر سکوں۔
جسٹس مظہرعالم نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم نے کمالیہ میں کہا سپریم کورٹ کے ججز کو ساتھ ملایا جا رہا ہے، کیا ایسے سیاسی بیانات دیے جانے چاہئیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت سے باہر کیا ہو رہا ہے اسے عدالت کو نہیں دیکھنا چاہیے۔
جسٹس مظہرعالم میاں خیل نے کہا کہ قومی ٹی وی چینلز پر چلا اور سب نے دیکھا، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ میڈیا نے تو کل یہ بھی ہیڈ لائن لگائی کہ ریفرنس واپس ہو رہا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم کو ایسے بیانات سے گریز کرنا چاہیے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ہم تو عدالت کے باہر کی باتوں سے متاثر نہیں ہوتے، لیکن سوشل میڈیا اور میڈیا کو ایسے الفاظ سے گریز کرنا چاہیے۔
جماعت بدلنے والے اراکین دوبارہ جیت کر آجائیں تو یہ میوزیکل چیئر نہیں؟ جسٹس اعجاز
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا وزیراعظم کو عدالت عظمیٰ پر بھروسہ نہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیراعظم کیا، کسی کو بھی غیر ذمہ دارانہ بیانات سے احتراز برتنا چاہیے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ آرٹیکل 63 اے کا سسٹم پر اثر پڑتا ہے، جماعت بدلنے والے اراکین دوبارہ جیت کر آجائیں تو یہ میوزیکل چیئر نہیں؟ یہ تو سسٹم کا مذاق اڑانا ہے۔
بیرسٹر خالد جاوید نے کہا کہ سپریم کورٹ پارٹی سے انحراف کو کینسر قرار دے چکی ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ ایک نئے الیکشن پر کتنا خرچ ہوتا ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جنرل الیکشن پر اربوں روپے کا خرچہ ہوتا ہے۔
حکومتی جماعت کے ارکان خلاف ووٹ دیں اور تحریک ناکام ہو جائےتوکیا 63 اے لگےگا؟ جسٹس منیب
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوتی تو اعتماد کا ووٹ کاؤنٹ ہوگا جبکہ جسٹس اعجاز کا کہنا تھا کہ اگر جماعت پارٹی سربراہ پر عدم اعتماد کرے تو سربراہ کوئی اور بھی ہو سکتا ہے، سیاسی جماعتوں کے اندر ان ہاوس تبدیلی بھی ہو سکتی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا سربراہ کا اختیار ہےکہ پارلیمانی پارٹی کی مرضی کےخلاف ڈکلیئریشن نہ دے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ پارٹی سربراہ کو جماعت کی رائے سننا ہوتی ہے، پارٹی سربراہ پک اینڈ چوز نہیں کر سکتا۔
جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ حکومتی جماعت کے ارکان خلاف ووٹ دیں اور تحریک ناکام ہو جائےتوکیا 63 اے لگےگا؟ اگر منحرف ارکان استعفیٰ بھی دے دیں تو عدم اعتماد کے ووٹ کی بات تو وہی ہوگی۔
4 سے 5 ڈکشنریوں میں دیکھا، انحراف لفظ کا کوئی مثبت مطلب نہیں ملا: جسٹس اعجاز الاحسن
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے وقت الیکٹوریٹ کو دماغ میں رکھنا ہو گا، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ووٹرکو فیصلہ کرنے دیں اگرکسی نے ان کے حقوق متاثر کیے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اسلام میں طلاق کا آپشن موجود ہے، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اسلام میں 4 شادیوں کی اجازت بھی ہے، یہ الگ بحث ہے، آئین میں درج ہےکہ کوئی بددیانتی کرے تو 5 سال ووٹرز کے پاس نہیں جا سکتا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 4 سے 5 ڈکشنریوں میں دیکھا، انحراف لفظ کا کوئی مثبت مطلب نہیں ملا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ مقررہ اسپیڈ سے اوپر ڈرائیو کریں تو جرمانہ ہوتا ہے، ڈرائیونگ ازخود جرم نہیں، انحراف غلط ہے لیکن اگر غلط کے خلاف ہو رہا ہو تو پھر کیا ہے؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ انحراف ثابت تو ہو پھر سزا کا تعین ہو، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ غلط فہمی ہے کہ انحراف ثابت ہونا ضروری ہے۔
سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پر سماعت منگل دوپہر ایک بجے تک ملتوی کردی۔
چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جزل کو کل ایک گھنٹے میں دلائل ختم کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ 30 مارچ کو دوسری طرف کے وکلا کو سنیں گے جبکہ اٹارنی جزل باقی وکلا کے دلائل کے بعد جواب الجواب دیں گے۔