06 اپریل ، 2022
مختلف ممالک سے پاکستان کے سفارتخانے دو ذرائع سے اپنی وزارتِ خارجہ کو باخبر رکھتے ہیں۔ ایک معمول کے خطوط ہوتے ہیں اور دوسرے خفیہ ٹیلی گرام۔
خفیہ ٹیلی گرام میں سفیر اس ملک کے عوام اور حکومتی صفوں میں پاکستان کے بارے میں سوچ کا تجزیہ اپنے الفاظ میں کرتے ہیں۔ بالخصوص جب بھی کسی بھی ملک کے حکومتی عہدیدار سے سفیر کی ملاقات ہوتی ہے تو ان کے خیالات کا خلاصہ خفیہ کیبل کی صورت میں بھجوایا جاتا ہے۔ ظاہر ہے اس میں اس سفیر کے اپنے خیالات اور تجزیاتی صلاحیت کا بھی دخل ہوتا ہے۔
امریکہ، چین، انڈیا، برطانیہ اور افغانستان جیسے ممالک سے نہ صرف یہ کیبلز تواتر کے ساتھ آتے ہیں بلکہ ان ممالک کی اہمیت کی وجہ سے انہیں خصوصی اہمیت بھی دی جاتی ہے۔ میری معلومات کے مطابق یہ خفیہ ٹیلی گرام براہ راست سیکرٹری خارجہ کو بھیجے جاتے ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی اور سی جی ایس کو بھی اسی روز بھیجے جاتے ہیں۔
یوں حکومت نے اس وقت جس خفیہ کیبل کو موضوع بحث بنایاہے، وہ اسی دن آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی اور سی جی ایس کو بھی گیا ہوگا اور اگر واقعی اس میں پاکستان کی سلامتی سے متعلق کوئی سنجیدہ خطرے کی بات ہوتی تو نہ صرف وہ اس پر ردعمل ظاہر کرتے بلکہ یہ شخصیات وزیراعظم سے کابینہ کی نیشنل سیکورٹی کمیٹی کی میٹنگ طلب کرنے کا بھی مطالبہ کرتیں۔ پاکستان کے بارے میں امریکی یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر دھمکی دینی ہو یا پھر کوئی پیشکش کرنی ہو تو عسکری قیادت کوکی جاتی ہے نہ کہ وزیر خارجہ یا وزیراعظم کو۔ مثلاً جب زلمے خلیل زاد ہر ہفتے پاکستان آتے تھے تو کبھی ایسا نہیں ہوا کہ وہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے نہ ملے ہوں لیکن وزیرخارجہ اور وزیراعظم سے وہ صرف ایک مرتبہ ملے۔
میں پورے دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ بات بالکل جھوٹ ہے کہ سی آئی اے چیف جب پاکستان آئے تھے تو عمران خان نے ان کے ساتھ ملاقات سے انکار کیا تھا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کو ان کی پاکستان آمد اور آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقات پتہ ہی تب چلاجب وہ پاکستان سے واپس جا چکے تھے۔ اس پس منظر کو سامنے لانے سے مقصود یہ ہے کہ امریکہ کو اگر کوئی سنجیدہ پیغام دینا ہوتا تو وہ براہ راست عسکری قیادت کو دیتا نہ کہ وہاں پر موجود ہمارے سفیر کو۔
اب یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ اس وقت امریکہ پاکستانی ریاست سے ناراض یا نالاں ہے۔ ایک وجہ تو افغانستان ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ امریکہ کی خواہش ہے کہ پاکستان ماضی کی طرح صرف اس کے کیمپ میں رہے لیکن جنرل کیانی اور آصف زرداری کے دور میں پاکستان نے روس اور چین کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات کا آغاز کرکے یہ پیغام دیا تھا کہ پاکستان مزید امریکہ کی طرف نہیں دیکھے گا۔ اس دور میں صرف امریکہ کے خلاف برائے نام نعرے نہیں لگائے گئے تھے بلکہ نیٹو سپلائی بند کی گئی، بلوچستان میں ان کے اڈے واپس لیے گئے اور سپلائی تب بحال کی گئی جب امریکہ نے معافی مانگ لی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ بھی اسی پالیسی کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں، اسی طرح سی پیک اور چین کے ساتھ قربت سے بھی امریکہ خوش نہیں اور چین کے تناظر میں اس نے انڈیا کو اپنے اسٹریٹیجک پارٹنر کا درجہ دیا ہے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ امریکہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری آف ا سٹیٹ برائے جنوبی ایشیا ڈونلڈ لو سے امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر اسد مجید خان نے 7 مارچ کو الوداعی ملاقات کی۔ میری معلومات کے مطابق اس ملاقات میں ان کے ساتھ ایک اور سفارتکار بھی موجود تھے اور وہ بھی پاکستان میں اپنے باسز کو بتا چکے ہیں کہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی جس طرح حکومت پیش کررہی ہے۔ اس ملاقات میں شاید انہوں نے روایتی طور پر پاکستان سے متعلق روایتی گلے شکوے کئے ہیں چونکہ ٹرم خان ایڈمنسٹریشن کا استعمال ہوتا ہے اس لیے شاید اس ملاقات میں بھی انہوں نے یہ ذکر کیا ہے۔
اس طرح کی ملاقاتوں میں عموماً دونوں ملکوں کی سیاسی صورت حال بھی ڈسکس ہوتی ہے چنانچہ ہوسکتا ہے پاکستان کی سیاسی صورت حال پر بھی بات چیت ہوئی ہو اور ڈونلڈ لو نے یہ بتایا ہو کہ عمران خان ایڈمنسٹریشن کی موجودہ پالیسیوں کے ساتھ تو چلنا مشکل ہے لیکن نئی حکومت نے اگر کچھ مثبت اقدامات لیے تو ان کے ساتھ کام ہوسکتا ہے۔ پھر اس طرح کی ملاقاتوں میں ہر ملک اپنے مطالبات دہراتا ہے اور جواب میں سفیر اپنے ملک کا موقف پیش کرتا ہے۔
بعض اوقات وہ عہدیدار مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں ممکنہ نتائج کا بھی ذکر کرتا ہے اور حکومت جو تاثر دے رہی ہے اس سے بظاہر یوں لگتا ہے کہ شاید ڈونلڈ لو نے ممکنہ نتائج کا بھی ذکر کیا ہو۔ اب اس ملاقات کا خلاصہ اور تجزیہ اسد مجید خان نے پاکستان بھجوایا اور ظاہر ہے کہ یہ اسی روز سیکرٹری خارجہ کے ساتھ مذکورہ عسکری حکام کے پاس بھی گیا ہوگا لیکن ہم نے دیکھا کہ حکومت نے اس کے بعد کئی روز تک اس حوالے سے نہ تو امریکہ سے کوئی احتجاج کیا اور نہ کابینہ کی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا کیونکہ وہ معمول کا ایک ٹیلی گرام تھا۔
کئی روز تک حکومت نے اس ٹیلی گرام کا کسی فورم پر کوئی ذکر نہیں کیا لیکن جب عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی تو عمران خان صاحب نے اپوزیشن کو مدافعتی پوزیشن پر لانے کے لیے اس ٹیلی گرام کا سہارا لے کر یہ پروپیگنڈا شروع کردیا کہ امریکہ نے سات مارچ کو انہیں دھمکی دی اور اسی ٹیلی گرام میں یہ بات بھی ہےکہ عدم اعتماد کی تحریک امریکہ کے ایما پر لائی جارہی ہے۔ اس دعوے سے سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ اور خود امریکی ہکا بکا رہ گئے۔ وائٹ ہاوس اوراسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے تردید کردی۔ ملاقات کرنے والے ڈونلڈ لو نے بھی ٹی وی انٹرویو میں کہہ دیا کہ عدم اعتماد یا دھمکی کی کوئی بات نہیں کی۔
سفیر اسد مجید کے ساتھ ملاقات میں موجودہ دوسرے سفارتکار بھی متعلقہ حکام کو بتاچکے ہیں کہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی۔ چنانچہ فیس سیونگ کے لیے عمران خان نے کئی روز بعد قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا اور اس میں نصف درجن غیرمتعلقہ وزیروں کو بلایا۔ کمیٹی کو اپنی مرضی کی بریفنگ دلوائی۔ پھر پریس ریلیز خود جاری کی لیکن پریس ریلیز میں نہ عدم اعتماد کا ذکرہے، نہ امریکہ کا نام ہےاور نہ حکومت گرانے کے لیے سازش کا ذکر عمران اور ان کے گوئبلز نے یہ پروپیگنڈا شروع کیا کہ ان کے دعوے کی سروسز چیفس نے بھی تصدیق کی ہے۔
اس سے بڑا ظلم یہ کیا کہ اس ٹیلی گرام کو بنیاد بنا کر آرٹیکل 5 کی آڑ لے کر انہوں نے ڈپٹی اسپیکر سے عدم اعتماد کی تحریک واپس کرائی اور پھر اسمبلی توڑنے کا اعلان کیا۔ گویا اس ایک ٹیلی گرام کی بنیاد پر انہوں نے ڈپٹی اسپیکر سے ڈیکلیئر کروایا کہ اپوزیشن کے تمام رہنما اور ممبران اسمبلی غیرمحب وطن ہیں۔ اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ اس ٹیلی گرام کی حقیقت واضح کی جائے کیونکہ اپوزیشن کو غیرمحب وطن قرار دینے، پھر اس کی آڑ میں عدم اعتماد پر ووٹنگ کی بجائے آئین شکنی کرکے اجلاس ملتوی کرنے اور پھر اسی کی آڑ میں اسمبلی توڑنے جیسے سارے افعال کی عمارت اس ٹیلی گرام پر کھڑی ہے۔
پاکستان خارجہ محاذ پر مذاق بن گیا لیکن اسی ٹیلی گرام کی حقیقت واضح کرنا اب لازم ہوگیا ہے۔جہاں تک میں سمجھا ہوں امریکی سازش کا ڈرامہ خود عمران خان کی سازش کے سوا کچھ نہیں۔