06 مئی ، 2022
3؍مئی ’’عالمی یوم آزادیِ صحافت‘‘ پر یہ اعتراف ضروری ہے کہ شاید پچھلے 75برسوں میں ہم بحیثیت صحافی اپنے عوام کو ’’سچ‘‘ بتانے میں ناکام رہے ہیں۔ ریاست تو خیر اِس حد تک ذمہ دار ہے کہ اِس نے جبر کے ذریعہ لوگوں کو جاننے کے حق سے محروم رکھا اور معلومات تک رسائی نہ دی مگر ہم نے بھی ’’کھوج‘‘ لگانے کی جستجو جلد ہی ترک کردی۔
آج بھی ہم اُس سچ کی تلاش میں ہیں کہ 50؍سال پہلے یہ ملک کیوں تقسیم ہوا تھا اور سانحۂ مشرقی پاکستان کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ آج تک ہم صحافیوں نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ 2؍مئی 2011ء کو ایبٹ آباد میں کیا ہوا تھا جب ایک طرف امریکہ کی خصوصی فورس رات کے اندھیرے میں ہماری سرحدپار کرکے دنیا کے سب سے مطلوب شخص القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو مار کر چلی گئی۔ اہم بات یہ ہے کہ مارنے والے بھی غیر ملکی مرنے والا بھی مگر سرزمین ہماری۔ اِس وقت صرف مفروضوں پر مبنی صحافت آزاد ’’باقی مسنگ‘‘۔
آج پھر امریکی سازش کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ساری ’’سیاست‘‘ ایک مراسلے کے گرد گھوم رہی ہے۔ اب تک کوئی ناقابلِ تردید حقائق ہم بحیثیت صحافی لوگوں تک لانے میں ناکام رہے ہیں۔ جہاں اِس کی اور بہت سی وجوہات ہیں وہاں شاید یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ صحافی اور صحافت ’’عوام‘‘ کا اعتبار کھوچکے۔ اِس میں شاید کہیں جانبدارانہ رویہ بھی شامل ہے۔ پھر یہاں تو انسان کا اپناسچ ہوتا ہے مگر صحافی کا کام صرف اور صرف عوام تک ’’حقائق‘‘ پوری ایمانداری سے پہچانا ہوتا ہے۔ یہی میرے آج کے کالم کا بنیادی نکتہ ہے کہ کیا ہم خود ’’آزادی ِ صحافت‘‘ کے ساتھ کھڑے ہیں؟
بھارت کے نامور صحافی کلدیپ نائر نے اپنی کتاب ’’ایک زندگی کافی نہیں‘‘ میں ایک جگہ ہندوستان کی صحافت کے بارے میں لکھا، ’’صحافت بھی آزادی اظہار کی طرح کا اخلاقی تصور ہے۔ اخبارات کا غیر ذمہ دارانہ اور بغیر کسی سوچ والا رویہ ان کی کہانیوں اور مضامین سے چھلکتا ہے۔ رپورٹر بغیر تصدیق کے یک طرفہ موقف پر مبنی کہانیاں نتائج کی پروا کئے بغیر بھیج دیتے ہیں۔ اکثر غیر اہم باتیں کور اسٹوری بن جاتی ہیں‘‘\۔
سب سے غور طلب بات انہوں نے یہ کہی کہ بعض اوقات ’’خبروں میں حقائق کے منافی باتیں ہوتی ہیں جو کسی کے کہنے پر شامل کی گئی ہوتی ہیں‘‘۔مجموعی طور پر ہمارے یہاں حقائق کو جاننے کی جستجو ختم ہوگئی ہے اور ہم صحافتی ہی نہیں سیاسی طور پر اِس حد تک تقسیم ہوگئے ہیں کہ خبر چاہے ایک ہی ہو ہر چینل پر اپنے انداز میں اور مفادات میں پیش کی جاتی ہے۔
’’سچ‘‘ تو یہ بھی ہے کہ جس ملک میں خود وزیراعظم کو مکمل معلومات تک رسائی حاصل نہ ہو وہاں ہم عوام کو جاننے کا حق دینے کی باتیں کررہے ہیں۔ میری رائے سے میرے بہت سے دوست اختلاف کرسکتے ہیں کہ ہم صحافیوں کو سرکاری اعزاز یا ایوارڈ وصول نہیں کرنا چاہئیں کیونکہ ہر حکومت کے، چاہے وہ سویلین ہی کیوں نہ ہو اپنے مفادات ہوتے ہیں اور صحافی کو مفادات کے ٹکرائو کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔
لہٰذا اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ صحافی کس طرح حقائق کو پیش کریں کہ عوام آپ پر اور آپ کی خبروں، تجزیوں اور تبصروں پر اعتبار کریں۔ ایک تقسیم شدہ معاشرے میں یہ انتہائی مشکل کام ہے۔ ہمارے بہت سے ساتھیوں نے کوشش بھی کی، سچ تو یہ ہے کہ انہیں اپنی جان تک سے ہاتھ دھونا پڑے مگر ہم وہ حقائق بھی سامنے نہ لاسکے۔ مثلاً اتنے سالوں بعد بھی یہ پتہ نہ چل سکا کہ 2005ء میں صحافی حیات اللہ کو کس نے اغوا اور قتل کیا۔ اُس کی اہلیہ نے جوڈیشل کمیشن کے سامنے حقائق بتائے تو اُسے بھی شہید کردیا گیا۔ کمیشن کی وہ رپورٹ آج بھی کسی ’’خفیہ الماری‘‘ میں رکھی ہوگی۔
آج بھی ہمیں تلاش ہے صحافی سلیم شہزاد کو اغوا کرکے مارنے والوں کی۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ کمیشن تو بنتے ہی غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ہیں،حقائق جاننے کے لیے نہیں کیونکہ آج تک کسی بڑے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی۔ جو آئی وہ بھی آدھا سچ ہے۔ 9/11کے بعد سے ہمارے 120سے زیادہ صحافی مارے جاچکے ہیں۔ ان میں سے بیشتر اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے دوران شہید ہوئے۔ بدقسمتی سے جس ’’خبر‘‘ کی وجہ سے وہ اس دہشت گردی کا شکار ہوتے ہیں اُن کے قتل کے بعد وہ ’’خبر‘‘ بھی مر جاتی ہے؟
حقیقت تو یہ ہے کہ ہم آج تک قائداعظم کی بیماری کے دوران ’’ایمبولینس‘‘ کی خرابی کی حقیقت کا بھی کھوج نہیں لگاسکے۔ سب اپنی اپنی سوچ کے مطابق اس پر تبصرہ کرتے ہیں۔ میں نے کئی سال پہلے ایئر مارشل اصغر خان سے یہ سوال کیا تو انہوں نے کہا ’’میں خود اس بات کا گواہ۔ میں نے روک کر پوچھا بھی تو جواب ملا کہ دوسری ایمبولینس آرہی ہے‘‘۔پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان سے لے کر بینظیر بھٹو کی شہادت تک کے حقائق آج تک پوشیدہ ہیں۔ حال ہی میں اُس وقت کی بینظیر پر بننے والی JITکے ایک رُکن سے پوچھنے کی کوشش کی تو اُس نے بس اتنا کہا ’’میں نے اُس پر اس لیے دستخط نہیں کئے کہ جن لوگوں کو نامزد کیا جارہا تھا اُن کا کردار انتہائی کم اور اصل لوگ آج بھی فرار ہیں‘‘۔
ہم تو آج تک C-130کا کھوج بھی نہ لگاپائے کہ آخر 17اگست 1988کے واقعہ کا ذمہ دار کون ہے۔ جو باتیں ہیں زیادہ تر مفروضوں پر مبنی ہیں ۔ ایسا ہی کچھ اوجڑی کیمپ میں پُراسرار دھماکے میں ہوا۔ یہاں سچ کو ’’قومی مفاد‘‘ کی ٹوپی پہنا دی جاتی ہے۔ ہر بڑے واقعے کو بیرونی سازش یاکارستانی قرار دے کر فائل بند کر دی جاتی ہے۔ اب فائل تلاش کرنا صحافی کا کام ہے جو بہرحال آسان نہیں۔ ’’سازشیں‘‘ اندرونی ہوتی ہیں بیرونی تو مفادات ہوتے ہیں۔
ہمارے کئی تحقیقاتی رپورٹر محنت کرتے ہیں حقائق جاننے کی مگر جس ملک میں معلومات تک رسائی نہ ہو وہاں سچ سامنے کم ہی آتا ہے۔یہاں تو صحافی سوال اُٹھاتا ہے تو وہ خود اُٹھ جاتا ہے۔ ’’مراسلہ‘‘ جیسا تیسا ہمارے سامنے ہے اب اس کو ’’Tip‘‘ سمجھ کر تحقیق کرنا ’’اہل صحافت‘‘ کا کام ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔