23 مئی ، 2022
تقریباً 2 برس کورونا وائرس سے مقابلہ کرنے کے بعد دنیا میں معمولِ زندگی ابھی بحال ہونا شروع ہی ہوئے تھے کہ ایک نئے وائرس نے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ اس وائرس کا نام ’منکی پاکس‘ ہے۔
حالانکہ یہ نیا وائرس کورونا کی طرح بہت زیادہ تیزی سے نہیں پھیل رہا پھر بھی طبی ماہرین نے انتباہ جاری کیا ہے کہ بروقت اقدامات کرکے اسے نہ روکا گیا تو دنیا کو ایک اور وبا کا سامنا ہوسکتا ہے۔
منکی پاکس دراصل ایک ایسا وائرس ہے جو بنیادی طور پر جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔ منکی پاکس، وائرس کے ’پاکس وائری ڈائے‘ (Poxviridae) فیملی سے تعلق رکھتا ہے، اس فیملی کو مزید 2 ذیلی خاندانوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں 22 انواع ہیں اور مجموعی طور پر اس فیملی میں وائرس کی 83 اقسام ہیں۔
اس فیملی سے تعلق رکھنے والے وائرس میں ’اسمال پاکس‘ یعنی چیچک بھی شامل ہے اور علامات میں قریب ترین ہونے کی وجہ سے منکی پاکس کو اس کا کزن بھی کہا جاتا ہے۔
منکی پاس کا نقطہ آغاز افریقا بتایا جاتا ہے۔ منکی پاکس کی دو اقسام دنیا میں موجود ہیں جن میں سے ایک قسم مغربی افریقا میں جبکہ دوسری وسطی افریقا میں کانگو طاس کے اطراف موجود ممالک میں پائی جاتی ہے۔
دنیا میں انسانوں میں منکی پاکس کا پہلا تصدیق شدہ کیس 1970 میں افریقی ملک ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو میں ایک بچے میں سامنے آیا تھا۔
منکی پاس کا نام سن کر اگر آپ کے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ اس کے پھیلاؤ میں بندر کی شرارت بھی تو شامل ہے تو آپ کا اندازہ غلط ہے۔
دراصل انسانوں میں منکی پاکس کا کیس سامنے آنے سے سالوں پہلے 1958 میں ڈنمارک کی ایک تجربہ گاہ میں رکھے گئے دو بندروں کو یہ بیماری ہوگئی تھی جس کی وجہ سے اس کا نام بھی منکی پاکس پڑ گیا۔
یہ بات طے ہے کہ اس وائرس کا منبع بندر نہیں ہیں اور نہ ہی یہ وائرس بندروں سے انسانوں میں منتقل ہوا ہے۔
سائنس دان حتمی طور پر یہ پتہ نہیں چلا سکے ہیں کہ کون سا جانور منکی پاکس وائرس کا گڑھ ہے تاہم افریقی چوہوں کو اس کے پھیلاؤ کا اصل ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔اگر منکی پاکس کا حامل کوئی جانور کسی شخص کو کاٹ لے، پنچہ مار دے یا انسان اس کے فضلے و تھوک وغیرہ سے تعلق میں آجائے تو وائرس انسان میں منتقل ہوجاتا ہے اور پھر متاثرہ انسان دیگر انسانوں میں اس کے پھیلاؤ کا سسب بنتا ہے۔
امریکی ریاست نیو جرسی کے محکمہ زراعت کی ویب سائٹ پرموجود اعداد و شمار کے مطابق ایک انسان سے دوسرے انسان میں منکی پاکس کی منتقلی کی شرح 3.3 فیصد سے 30 فیصد کے درمیان ہے۔ البتہ کانگو میں وائرس کے حالیہ پھیلاؤ کی شرح 73 فیصد کے قریب ریکارڈ کی گئی۔
اگر کسی شخص میں منکی پاکس وائرس موجود ہے تو علامات ظاہر ہونے سے قبل ہی وہ اس وائرس کو دوسرے انسان میں منتقل کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ عام طور پر متاثرہ شخص کو زیادہ سے زیادہ 21 روز تک دوسرے لوگوں سے میل جول نہیں رکھی چاہیے ورنہ وائرس منتقل ہوسکتاہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق منکی پاکس کی علامات بھی چیچک سے ملتی جلتی ہیں البتہ اس کی شدت چیچک سے کم ہوتی ہے۔
عام طور پر اس کی علامات ایک سے دو ہفتوں کے درمیان سامنے آتی ہیں۔متاثرہ شخص میں پہلے سر درد، بخار، سانس پھولنے کی علامات ظاہر ہوتی ہیں اور پھر چیچک کی طرح جسم میں دانے نمودار ہوجاتے ہیں۔مرض کی شدت کے اعتبار سے ان دانوں کے حجم میں فرق ہوسکتا ہے۔ ان دانوں میں پَس بھی موجود ہوتا ہے اور مریض کو بے چینی اور خارش بھی محسوس ہوسکتی ہے۔
مرض شدت اختیار کرجائے تو منکی پاکس جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کی جن دو اقسام کا ہم نے ذکر کیا تھا ان میں مغربی افریقی قسم کی شدت کانگو طاس کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق مغربی افریقا میں پائے جانے والے منکی پاکس وائرس میں شرح اموات 3.6 فیصد ہے جبکہ کانگو طاس ریجن کے منکی پاکس وائرس میں شرح اموات 10.6 فیصد ہے۔اچھی بات یہ ہے کہ امریکا اور یورپی ممالک میں کم شدت والے منکی پاکس وائرس کے کیسز سامنے آئے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق کسی بھی شخص میں منکی پاکس وائرس ہے یا نہیں اسے جانچنے کیلئے مؤثر ترین طریقہ پولی میریس چین ری ایکشن (پی سی آر) ٹیسٹ ہے۔ اس مقصد کیلئے متاثرہ شخص کے جسم میں ابھرے دانوں میں بھرے مواد کو بطور نمومہ استعمال کیا جاتا ہے۔
WHO کے مطابق چیچک سے بچاؤ کی ویکسین عام طور پر منکی پاکس کے خلاف بھی مؤثر ثابت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک ویکسین (MVA-BN) بھی منکی پاکس سے بچاؤ میں معاون ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق Tecovirimat نامی دوا بھی منکی پاکس کو روکنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ یہ چیچک اور منکی پاکس جیسی بیماریوں کیلئے منظور شدہ دوا ہے۔ البتہ ویکسین اور دوا بڑے پیمانے پر دستیاب نہیں ہیں اور اگر منکی پاکس کا پھیلاؤ جاری رہا تو اس کی قلت بھی پیدا ہوسکتی ہے۔
بچے، بوڑھے اور حفاظتی ٹیکے نہ لگوانے والے افراد کو اس وائرس سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔
اس سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟
منکی پاکس دنیا کے چند ممالک میں عام طور پر پایا جاتا ہے اور ان میں زیادہ تر افریقی ممالک ہیں۔ ان ممالک میں بینین، کیمرون، جمہوریہ وسطی افریقا، ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو، گبون، گھانا، آئیوری کوسٹ، لائبیریا، نائیجیریا، جمہوریہ کانگو، سیرا لیون اور جنوبی سوڈان شامل ہیں۔یہ وہ ممالک ہیں جہاں ہر سال ہی منکی پاکس کے ہزاروں کیسز آتے ہیں البتہ اس بار تشویش کی بات اس وائرس کے کیسز کا ان ممالک میں سامنے آنا ہے جہاں بنیادی طور پر منکی پاکس نہیں پایا جاتا۔
عالمی ادارہ صحت کے 21 مئی 2022 تک کے اعداد و شمار کے مطابق آسٹریلیا، بلجیئم، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، نیدرلینڈز، پرتگال، اسپین، سوئیڈن، برطانیہ اور امریکا میں مجموعی طور پر منکی پاکس کے 92 کیسز سامنے آچکے ہیں جن میں سب سے زیادہ کیسز برطانیہ، اسپین اور پرتگال میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ افریقا کے باہر 1970 سے اب تک منکی پاکس کے یہ سب سے زیادہ کیسز ہیں۔
عام طور پر امریکا اور یورپی ممالک میں منکی پاس ان لوگوں کے ساتھ آجاتا ہے جو افریقی ممالک کا سفر کرتے ہیں یا وہاں سے کوئی چیز درآمد کرتے ہیں البتہ حالیہ لہر کی وجہ کیا ہے اس حوالے سے ماہرین کی تحقیق جاری ہے۔
منکی پاکس سے ہونے والی اموات کی بات کی جائے تو 15 دسمبر 2021 سے یکم مئی 2022 کے دوران کم و بیش 67 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ سب سے زیادہ 57 اموات ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو میں ہوئی ہیں۔
پاکستان میں اب تک منکی پاکس کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا البتہ حکومت نے اس حوالے سے الرٹ جاری کردیا ہے۔
ادارہ قومی صحت نے وفاقی اور صوبائی حکام کو منکی پاکس کے مشتبہ کیسز سے متعلق ہائی الرٹ جاری کیا ہے اور ملک کے تمام داخلی راستوں اور ائیر پورٹس پر مسافروں کی سخت نگرانی کرنے کی ہدایت جاری کی گئی ہے۔