سراج الدولہ اور عمران خان

عمران خان نے خود کو سراج الدولہ اور سازش کرنے والوں کو میر جعفر قرار دے کر جس ’جنگِ پلاسی‘ کا آغاز کیا تھا، وہ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ اِس لڑائی کا نتیجہ جو بھی نکلے لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ ان تاریخی کرداروں کی حقیقت کیا ہے اور ان کی موجودہ دور سے کوئی مماثلت بنتی بھی ہے یا نہیں؟

عمومی تصور کے برعکس سراج الدولہ نے آخری وقت میں جراتمندی سے حالات کا سامنا کرنے کے بجائے زندگی کی بھیک مانگنا شروع کردی اور میر جعفر سے التجا کی کہ اسے کسی کونے میں باقی ماندہ زندگی گزارنے کی اجازت دے دی جائے۔

بعض درباریوں نے مشورہ دیا کہ سراج الدولہ کو جیل میں زندہ رکھنا چاہیے لیکن میر جعفر کا بیٹا میرن اس حق میں نہ تھا، اس کا خیال تھا کہ نقشِ کہن مٹا دیا جائے۔ اِس سے قبل وہ علی وردی خان کے پورے خاندان کو ٹھکانے لگا چکا تھا۔ حکمران خاندان کی 70بیگمات کو ایک کشتی میں لے جاکر دریائے ہگلی میں ڈبو دیا گیا۔ میر جعفر نے خاموشی اختیار کرلی اور فیصلہ اپنے بیٹے پر چھوڑ دیا۔

بھارتی مصنف سندیپ چکرورتی نے لکھا ہے کہ میرن نے اپنے والد کی خاموشی کو ان کی رضا مندی سمجھا۔ اس نے کہا، آپ آرام کریں، میں سنبھال لوں گا۔ میر جعفر سونے چلا گیا۔ غلام حسین خان ’سیار المتاخرین‘ میں لکھتے ہیں کہ میرن نے اپنے ساتھی محمدی بیگ کو سراج الدولہ کو مارنے کا حکم دیا۔ جب میرن ساتھیوں سمیت سراج الدولہ کے پاس پہنچا تو اسے اندازہ ہوا کہ کیا ہونے والا ہے۔ اس نے التجا کی کہ مارنے سے پہلے وضو کرنے اور نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے۔ کام جلد ختم کرنے لیے قاتلوں نے اس کے سر پر پانی سے بھرا برتن انڈیل دیا۔

جب سراج الدولہ کو احساس ہوا کہ سکون سے وضو نہیں کرنے دیا جائے گا تو اس نے کہا کہ پینے کے لیے پانی دیا جائے مگر پانی پلانے کے بجائے محمدی بیگ نے اچانک وار کرکے سراج الدولہ کو اپنے ہی خون میں نہلا دیا۔ اگلے روز سراج الدولہ کی مسخ شدہ لاش کو ہاتھی کی کمر پر لاد دیا گیا اور مرشد آباد کی گلیوں اور بازاروں میں گھمایا گیا۔

ولیم ڈیلریمپل اپنی کتاب ’دی انارکی‘ کے صفحہ نمبر 133پر لکھتے ہیں کہ صرف ایک عورت کی جان بخشی کی گئی اور وہ تھی نواب سراج الدولہ کی بیوی لطف النسا جس کی خوبصورتی کے چرچے تھے۔ میر جعفر اور اس کے بیٹے میرن دونوں نے سراج الدولہ کی بیوہ کو شادی کا پیغام بھجوایا مگر اس نے انکار کردیا۔

سراج الدولہ اور میر جعفر ہماری تاریخ کے دو ایسے علامتی اور ملامتی کردار ہیں جن کے بارے میں حقائق کو مسخ کرکے مبالغوں اور مغالطوں پر انحصار کیا گیا۔ پہلی غلط فہمی تو یہ ہے کہ سراج الدولہ کو غیرملکی سازش کے ذریعے ہٹایا گیا مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کی حکومت نااہلی، بدانتظامی اور ذاتی کمزوریوں کے باعث ختم ہوئی۔ سازش اپنوں نے تنگ آکر کی اور ایسٹ انڈیا کمپنی کو پُرکشش معاوضے پر اس کا حصہ بننے پر آمادہ کیا گیا۔ 

صدر عارف علوی جو گاہے گاہے کتابیں پڑھنے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں، انہوں نے 14فروری 2022کو ایک وڈیو میں اسکندر مرزا کے بیٹے ہمایوں مرزا کی کتاب ’’From Plassey to Pakistan‘‘ پڑھنے کا مشورہ دیا۔ اگر صرف اسی ایک کتاب کا ہی مطالعہ کر لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پرائے شعلوں نہیں بلکہ آتشِ گل نے چمن جلا ڈالا۔

ولیم ڈیلریمپل اپنی کتاب ’دی انارکی‘ کے صفحہ نمبر 82پر لکھتے ہیں کہ فارسی، بنگالی، مغل، فرانسیسی، ولندیزی یا انگریزی اس دور کے کسی بھی مورخ نے سراج الدولہ سے متعلق کوئی اچھی بات نہیں لکھی۔Jean Lawجو اس کے سیاسی اتحادی تھے، ان کے مطابق سراج الدولہ ہر قسم کی بدکاری میں لتھڑا ہوا تھا۔ 

ہندو عورتیں گنگا میں نہاتیں تو اس کے شریک جرم کارندے کشتیوں میں جاکر خوبصورت دوشیزائوں کو اُٹھا لاتے۔ لوگ اس کے نام سے ہی خوف کھاتے۔ جب اس نے کسی کو موت کے گھاٹ اُتارنا ہوتا تو علی وردی خان چیخوں کی آوازوں سے بچنے کے لیے شہر سے باہر چلے جاتے۔

سراج الدولہ کے اپنے کزن سید غلام حسین خان نے اپنی تصنیف ’سیار المتاخرین‘ میں لکھا ہے کہ سراج الدولہ کا کردار جہالت اور بدکاری سے بھرپور تھا۔ وہ ایک نفسیاتی مریض اور زانی تھا۔ مرد، عورت جس پر بھی اس کا دل آجاتا، اسے اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھانے سے نہ کتراتا۔ وہ سراپا جہالت، طاقت کے نشے میں چور، معقولیت سے بےبہرہ، ایک ایسا شخص تھا جسے اچھے، برے یا صحیح غلط کی تمیز نہ تھی۔ لوگ اس سے خدا کی پناہ مانگتے اور فرعون کی طرح اس سے نفرت کرتے تھے۔ سراج الدولہ سے متعلق مورخین نے جو حقائق بیان کیے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ انتہائی نااہل، متکبر اور انا پرست شخص تھا۔

ولیم ڈیلریمپل لکھتے ہیں کہ سراج الدولہ فطرت کے اعتبار سے جلد باز، پست ہمت، ضدی اور متلون مزاج تھا۔ وہ بہت معمولی اور چھوٹی باتوں پر برا مان جاتا اور بعض اوقات تو بغیر کسی وجہ کے بگڑ جاتا۔ اُس کے مزاج میں اتار چڑھائو والی وہ سب خصوصیات تھیں جو کسی نازک مزاج شخص کے بھڑک اُٹھنے پر فساد کا سبب بن سکتیں۔ محض ایک بات جو اس کے حق میں کی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ بچپن سے ہی خودمختاری کا تصور اس کے ذہن میں سمایا ہوا تھا۔

ویسے تو جس طرح سراج الدولہ کے کزن غلام حسین نے اس کی شخصیت کا خاکہ کھینچا ہے اسی طرح کی رائے حفیظ اللہ نیازی صاحب سے لی جا سکتی ہے مگر میں حیران ہوں کہ عمران خان ایسا نیک، صالح اور پرہیز گار شخص خود کو سراج الدولہ جیسے بدکردار شخص سے کیسے تشبیہ دے سکتا ہے؟ بالخصوص یہ مماثلت تو بہت خوفناک ہے کہ سراج الدولہ کے خلاف سازش مئی کے مہینے میں عروج پر پہنچی، 23جون کو پلاسی کے میدان میں فیصلہ کن جنگ لڑی گئی اور 2جولائی کو سراج الدولہ کو قتل کردیا گیا۔ خدا نہ کرے تاریخ خود کو دہرائے اور اب بھی ایسا ہی ہو۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔