اتحادی حکومت کی ترجیحات اور شفاف انتخابات؟

آئی ایم ایف کے دبائو پر اتحادی حکومت نے تیل30 روپے لٹر مہنگا کرتے ہوئے بالآخر عوام پر پٹرول بم گرا ہی دیا ہے حالانکہ یہ لوگ پیہم دعوے کرتے آ رہے تھے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے عوام کو سابق نااہل حکمران کے مہنگائی سونامی سے نکالیں گے۔

آج مفتاح اسماعیل وہی زبان بول رہے ہیں جو ما قبل اناڑی حکومت بولتی تھی۔ یہ دلیلیں دی جا رہی ہیں کہ پاکستان میں تیل اب بھی کئی ملکوں سے سستا ہے۔ یہ نہیں بتایا جارہا کہ پاکستان میں عوام کی قوت خرید ان ممالک کی نسبت کس قدر کمزور ہے۔

بتایا جا رہا ہے کہ پہلے آئل پر چھیاسی روپے فی لٹر سبسڈی دی جا رہی تھی اور مہنگا کرنے کے باوجود چھپن روپے دی جائے گی جو ملکی اکانومی پر بوجھ ہے۔رات قوم نے فنانس منسٹر کوسنا اور اب وزیر اعظم شہباز شریف کو اسی نوع کے دلائل پیش کرتے سنے گی اور یہ ضرور سوچے گی کہ کیا موصوف اپنی وزارتِ عظمیٰ کے لیے ن لیگ کی پاپولیریٹی پر خود ہی آئل بم تو نہیں گرا رہے؟

ہماری موجودہ اتحادی حکومت مانگے تانگے کی جن بیساکھیوں پر کھڑی ہے وہ اِس قدر کمزور ہیں کہ طاقتوروں کی آنکھ کے ایک اشارے پر ڈھیر ہو سکتی ہے۔

اتنی ناپائیدار شاخ پر اقتدار کا آشیانہ بنانے والے ذرا سوچیں کہ آج طاقتور وں کی خوشنودی کے لیے یہ لوگ عوام دشمنی پر مبنی ایسے سنگدلانہ فیصلے کریں گے اور تھوڑے ہی دنوں پر بجٹ میں ایسے ہی زہریلے گھونٹ عوام کو پلائیں گے تو عوامی نفرت کا سارا لاوا کیا ان کے خلاف نہیں اٹھے گا؟ تب یہ لوگ کہاں کھڑے ہوں گے؟

کیا نواز شریف اور ان کے چاہنے والوں کو اس کا ادراک نہیں؟ اس سارے منظر نامے میں جن کی مقبولیت دائو پر لگی ہے اس کی اصل قیمت بھی انہیں ہی چکانا پڑے گی۔ درویش کو تو اس وقت سخت حیرت ہوئی تھی جب یہ لوگ عبوری سیٹ اپ میں بڑے عہدے حاصل کرنے کے لیے بے تاب ہو رہے تھے۔

گمان تھا کہ یہ لوگ یوں عہدوں پر براجمان ہونے کی بجائے خود پیچھے رہ کر ان لوگوں کو آگے کریں گے جو ان کی منشاکے مطابق تو چلیں لیکن ان کی خامیوں کا ملبہ اُن پر نہ پڑے۔

اب بھی ایک تجویز تو یہ تھی کہ پوری بے یقینی کو بھانپتے ہوئے وزیر اعظم قوم سے خطاب میں پیٹرول کو 30 روپے فی لٹر بڑھانے کی بجائے 30 روپے کم کرنے کا اعلان کرتے اور اسی طرح دیگر اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں مناسب کمی کے فیصلے سناتے ہوئے واضح کرتے کہ ا نہیں صرف عوام کی خوشنودی درکار ہے ہم عوام پر بم گرانے کی بجائے اقتدار کو لات مارتے ہیں۔

یوں اسمبلیاں توڑتے ہوئے عوام کے بیچ آ کھڑے ہوتے اس کے بعد جو اپنے آپ کو ریاست کہلواتے ہیں وہ لے آتے اپنا من پسند کوئی کھلاڑی یا اناڑی۔بہرحال یہ ایک تجویز تھی جسے ن لیگ نے یہ کہتے ہوئے نظر انداز کردیا ہے کہ ہم نے اپنی سیاست یا پاپولیریٹی کو نہیں دیکھنا اس ملک کے وسیع تر مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسے معاشی طور پر دیوالیہ نہیں ہونے دینا۔

آج وزیراعظم شہباز شریف بھی قوم سے یہی کہنے جا رہے ہیں کہ ہم نے آسان کی بجائے مشکل راستے کا انتخاب کیا ہے یہ اسمبلیاں اپنی آئینی مدت پوری کریں گی۔ن لیگ کی قیادت میں اس اتحادی حکومت کیلئے بلاشبہ سب سے بڑا چیلنج ملک کی معیشت کو بحال کرنا ہے تاکہ ترقی خوشحالی آئے۔ اس کا بہترین راستہ تو تمام سیاسی پارٹیوں اور اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت سے متفقہ میثاق معیشت ہی تھا جو موجودہ حالات میں ایک شخص کی انا پرستی سے ناممکن ہو چکا ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں موجودہ اتحادی حکومت نے حال ہی میں جو دو تین جرأت مندانہ فیصلے کئے ہیں ان کی تحسین نہ کرنا بھی بے انصافی ہوگی۔ اوّل یہ کہ انہوں نے پارلیمنٹ کے ذریعے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں EVMاور اوورسیز ووٹنگ جیسے متنازع اور ناقابل قبول الجھائو سے قوم کی جان چھڑوا دی ہے۔

اس پر کہنے کو تو بہت کچھ ہے لیکن کالم میں اس کی گنجائش نہیں۔دوم: نیب نے حالیہ برسوں میں جس طرح پولیٹکل انجینئرنگ میں اپنا گھنائونا کردار ادا کیا ہے، اس سے قوم کا کونسا باشعور فرد واقف نہیں دیگر احتسابی اداروں کی موجودگی میں مخصوص مفادات کی حامل ایسی چالاکیوں کا خاتمہ ہونا چاہیے جن کا مشن محض اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنا اور سراسیمگی پھیلانا ہو۔

سوئم :عدلیہ میں ججز کی تعیناتی بھی ہمارے نظام عدل کا ایک سلگتا ایشو ہے اس حوالے سے دنیا کی تمام بڑی بڑی جمہوریتوں اور ترقی یافتہ اقوام کے دستوری اہتمام سے روشنی ڈالی جا سکتی ہے جس میں اولین ترجیح پارلیمنٹ کی، جو آئین کی ماں ہے،تمام بڑی بڑی تعیناتیوں کو پارلیمنٹ کی منظوری سے مشروط ہونا چاہیے اس کے بغیر عوامی حاکمیت، اقتدار اعلیٰ یا آئین و جمہوریت کی سربلندی کے نعرے محض ڈھکوسلہ ہوں گے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔