آخر یہ صبر اور برداشت صرف عوام کیوں کرے "خواص "کیوں نہیں؟

معیشت دانوں کے مطابق کسی بھی معیشت کا انحصار تین قسم کے وسائل و ذرائع پر ہوتا ہے۔ زمین یعنی قدرتی وسائل محنت یعنی انسانی وسائل، اوع سرمایہ یعنی مالی وسائل۔ بفضل خدا پاکستان قدرتی اور انسانی وسائل سے مالا مال ہے۔ (جیسے کہ بچپن سے معاشرتی علوم کی کتابوں میں پڑھتے آرہے ہیں۔) ہاں البتہ انسانی وسائل کو ہمیشہ ایک وبال اور مشکل سمجھا گیا اور اسے معیشت پہ بوجھ گردانہ جاتا ہے۔ 

سمجھ میں نہیں آتا کہ جب انسانی ذرائع ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں تو انہیں معاشی مسئلہ کیوں سمجھا جاتا ہے؟ رہی بات سرمایہ کی یعنی مالی وسائل کی تو حکومت اور حکومتی محکموں کے علاوہ پاکستان میں اس کی ہر جگہ بھر مار ہے۔ پاکستان میں ہونی والی شادیوں اور ان پر اٹھنے والے اخراجات سے شروع کرتے ہیں۔ شادی امیروں کے گھر کی ہو یا غریبوں کے گھر کی دونوں گھرانوں میں دنیا والوں کو دکھانے اور اپنا رعب جمانے کے لئے پیسہ بہایا جاتا ہے۔ امیر کو شاید قرض نہ لینا پڑتا ہو لیکن غریب تو اپنے آپ کو گروی رکھوا کر "برادری میں اپنی پگ اونچی " رکھواتا ہے بعد میں بھلے سے قرض دینے والوں سے منہ چھپاتا بھرے اور ڈپریشن کا شکار ہوجائے۔ 

لیکن سرمائے کی کمی شادیوں میں نظر نہیں آتی۔ دولت چاروں ہاتھوں اور پیروں سے لٹائی جاتی ہے۔ بے جا اخراجات کئے جاتے ہیں کہ جن کے بغیر بھی شادی بخوبی انجام پا سکتی تھی۔ دوسرے نمبر پر آتے ہیں سیاسی جلسے اور جلوس۔ جن کے انعقاد پہ پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے لیکن کبھی فنڈ کی کمی کا رونا نہیں رویا جاتا۔ اچانک جلسہ کا اعلان ہوتا راتوں رات تمام پمفلٹ، جھنڈے اور پینا فلیکس چھپ کر سارے شہر اور ملک میں تقسیم اور لگا دیئے جاتے ہیں۔ لیکن فنڈز کی کمی کا کوئی ذکر نہیں ہوتا۔

 اربوں روپے ایک جلسے پہ خرچ کردیئے جاتے ہیں۔ اسی احتجاجی مظاہرے اور جلوسوں کا انتظام کرنے میں بھی اچھی خاصی رقم درکار ہوتی ہے۔آخر یہ پیسے کہاں سے آتے ہیں؟اس کے بات ذرا سرکاری دفاتر کا رخ کریں۔ چھوٹے سے چھوٹے کام کرنے یعنی ایک میز سے فائل دوسری میز سے پہچانے کے پیسے لئے جاتے، گھر کے کاغذات ہوں، نوکری کے، پینشن کے، گاڑی کی رجسٹری کے، دوکان خریدنے کے، بزنس شروع کرنے وغیرہ وغیرہ ہر مرحلے پہ "جیب گرم" کرنی پڑتی ہے۔ 

ایسے میں سرمائے کی کمی کا کوئی ذکر نہیں ہوتا بلکہ شکایت اس بات کی ہوتی ہے کہ جتنے پیسے لینے ہیں لے لے بس کام جلدی ہوجائے۔ یعنی مال دینا مسئلہ نہیں بلکہ انتظار کی زحمت اٹھانا مسئلہ ہے۔دفتر کی حالت خستہ ہوتی ہے لیکن دفتر میں کام کرنے تقریبا ہر شخص کی جیب گرم ہوتی ہے۔ "چائے پانی" ہمیشہ دوسروں کے پیسے ہی پی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔ دوسری طرف جیب گرم کرنے والے ہمہ تن تیار رہتے ہیں گرمی پہچانے کے لئے۔اسی طرح انتقال کی صورت میں اخراجات کی بھر مار سے سب ہی واقف ہیں۔ شہروں میں کورونا کی بدولت تقریبات کچھ کم ہوگئیں ہیں لیکن گاؤں دیہات میں فوتگی کی صورت میں رسم و رواج کے نام پر بے جا اخراجات کا وہی حال ہے۔ 

مالی وسائل وہاں بھی آڑے نہیں آتے۔ صدر، وزیراعظم، وزراء، وزرائے اعلٰی اور گورنروں، اعلٰی عہدے داران کی تنخواہیں اور مراعات کسی بھی طرح یہ تاثر دیتی ہیں کہ یہ کسی ایسے ملک کے لوگوں کی تنخواہیں اور مراعات ہیں جہاں حکومتی اراکین حکومت سنبھالتے ہی یہ کہا شروع کردیتے ہیں کہ خزانہ خالی ہے حکومتی امور نپٹانے میں مشکلات ہورہی ہیں، مالی مشکلات کا سامنا ہے ایسے میں عوام کو ہمارا ساتھ دینا ہوگا اور صبر اور برداشت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

 آخر یہ صبر اور برداشت صرف عوام کیوں کرئے "خواص "کیوں نہیں؟اب حکومتی پالیسی غربت مکاوء کے ساتھ ساتھ بلکہ اس سے بڑھ کے "خواص مکاو" ہونی چاہیے۔ کیا خیال ہے آپ لوگوں کا آخر آپ بھی تو "عوام" ہی ہیں کیوں نہ اب خواص جو ہماری معیشت پہ بوجھ ہیں ، جن کی کارکردگی صفر رہی ہیں، جنہوں نے ملک کے لئے کبھی کچھ نہیں کیا صرف اپنے لیے کیا ہے، جن کے بچے ہمیشہ پاکستان کی آمدنی پر باہر پلے بڑھے ہیں، جن کو پاکستان سے کوئی مطلب نہیں، جن کی ملک کے باہر جائیدادیں اور بینک بیلنس ہیں۔ ایسے خواص کو ختم کیا جائے ان کے اور اٹھنے والے اخراجات محدود کئے جائیں۔ کیوں کہ انسانی وسائل بوجھ نہیں یہ خواص معیشت پہ بوجھ ہیں۔

[email protected]


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔