پاکستان کیسے ترقی کرے؟

مرزا محمد سعید دہلوی دو زمانوں کا سنگم تھے۔ 1886 میں پیدا ہوئے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں علامہ اقبال سے تعلیم پائی اور اسی کالج میں احمد شاہ پطرس بخاری کو تعلیم دی۔ 1905 میں انیس برس کی عمر میں ’’خوابِ ہستی‘‘ کے عنوان سے ناول لکھا۔ اتفاق سے اسی برس مرزا ہادی رسوا کا ناول ’’امرائو جان ادا‘‘ بھی شائع ہوا۔ دونوں کی عمر اور علم میں جو فاصلہ تھا وہی دونوں تصانیف میں بھی ہویدا تھا۔ مرزا سعید وکٹورین اخلاقیات کے زیر اثر تھے، زبان شستہ، نثر بے داغ مگر کہانی کہنے کا ہنر ناپختہ۔ 

دوسری طرف مرزا رسوا کے قاموسی علم نے لاشعور کے گہرے پانیوں میں اتر کر ہاتھی دانت پر ایک تہذیب کی نقش کاری کی تھی۔ 1962 میں مرزا سعید کا کراچی میں انتقال ہوا تو کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی، ہم نے اس ملک میں علم پر اس طور غفلت کی دبیز چادر ڈال دی گویا خاندان کے ناگفتہ بہ واقعات چھپائے جاتے ہیں۔ علم محض کتابیں کھنگالنے اور امتحان پاس کرنے کا نام نہیں، جستجو کی ثقافت ہے، جہالت کو مسترد کرنے کا ظرف ہے۔ جہالت معلومات سے محرومی کو نہیں کہتے۔ نا انصافی، محرومی، انسانی آلام سے بے حسی اور تعصب سے پیدا ہونے والی ظلمت حقیقی جہالت ہے۔ انی کنت من الظالمین…

ان دنوں ہمارا ملک پھر سے ایک گرداب میں ہے۔ سیاسی انتشار، آئینی پیچیدگیاں، معاشی بحران اور بے سمت معاشرت۔ ہمیں دوسروں کو اپنی مشکلات کا دوش دینے کا لپکا ہے کہ اس میں اپنی ذمہ داری سے سبک باری بھی ہے اور خود ساختہ مظلومیت کی نیم گرم آسودگی بھی۔ مشکل یہ ہے کہ تاریخ کا قافلہ کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ ہمیں آزادی حاصل کیے پون صدی ہونے کو آئی۔ دنیا نے اس دوران بہت سے اتار چڑھائو?دیکھے۔ 1947ء میں انسانوں کی متوقع عمر 32 برس تھی اور عالمی سطح پر خواندگی بمشکل 56 فیصد تھی۔ آج عالمی شرح خواندگی 87 فیصد کے لگ بھگ ہے اور متوقع عمر 70 کا ہندسہ پار کر چکی ہے۔ دو تہائی انسانیت غیر ملکی غلامی اور نسل پرستی سے جونجھ رہی تھی۔ درجنوں جان لیوا بیماریاں ایسی تھیں جن کا آج نام و نشان نہیں۔

 نو آبادیاتی نظام تاریخ کا حصہ بن چکا۔ ساٹھ کی دہائی ان گنت تبدیلیوں کی نقیب تھی عورت اور مرد کی مساوات ایک اصول کے طور پر تسلیم کر لی گئی۔ مانع حمل ادویات کی دستیابی سے آبادی کی شرح افزائش ایک فیصد سے کم رہ گئی۔ 1970 ء میں صرف ایک ملک کی معیشت کا حجم ایک کھرب ڈالر سے زیادہ تھا۔ آج پندرہ ممالک اس صف میں شامل ہو چکے ہیں۔ اربوں انسان غربت کی لکیر سے اوپر کھینچے جا چکے ہیں۔ ویت نام، بنگلہ دیش، روانڈا اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک ترقی کی دوڑ میں تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ایسا نہیں کہ دنیا میں راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ 

ابھی جنگ کا عفریت انسانیت کی فصل اجاڑ رہا ہے۔ ابھی مذہبی تعصب ختم نہیں ہوا۔ امیر اور غریب کا فرق باقی ہے۔ عورت اور مرد میں مکمل مساوات کا خواب ادھورا ہے۔ لیکن یہ قصے اس دنیا سے تعلق رکھتے ہیں جسے ہم اپنے تئیں حریف سمجھتے ہیں۔ ہم اپنے ملک میں جس اشاریے پر انگلی رکھتے ہیں خفت کا سامان سامنے آتا ہے۔ اس کا علاج ہم نے یہ ڈھونڈا ہے کہ اپنے انفرادی اور گروہی تعصبات کی روشنی میں کسی فرد یا گروہ پر الزام دھر دیتے ہیں۔ یہ نہیں سمجھتے کہ اگر ہم ایک قومی ریاست ہیں تو ہماری ناکامیاں بھی اجتماعی ہیں۔

ہمارے چار بڑے مسائل ہیں۔ ہم نے ریاست اور شہری کا رشتہ استوار نہیں کیا۔ ریاست غافل اور شہری لاتعلق ہے۔ جمہوریہ کی سیاسی اصطلاح ہمارے ملک کے نام کا حصہ ضرور ہے لیکن ہم اس کا مطلب نہیں سمجھتے۔ شہریوں کا حق حکمرانی تسلیم کیے بغیر قومی ریاست کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارا دوسرا بڑے مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے تعلیم کو اولین قومی ترجیح قرار نہیں دیا۔ ستر کی دہائی کے شروع میں ہمارا ملک آدھا رہ گیا تھا۔ اتفاق سے تب خلیج کے ممالک میں افرادی قوت کی ضرورت جنم لے رہی تھی۔ ہم نے اپنے نیم خواندہ اور بے ہنر بچے عرب صحراؤں کی دھوپ میں بھیج دیے۔ آج کی دنیا میں معیشت کے ذرائع انقلابی تبدیلیوں سے گزر رہے ہیں۔ علم کی اس معیشت میں جسمانی مشقت نہیں ذہنی صلاحیت کا سرمایہ کام آئے گا۔ ہم خواندگی میں پیچھے ہیں اور ہماری تعلیم علمی مقابلے کی صلاحیت سے عاری ہے۔ 

ایٹمی صلاحیت نے ہمارا ملکی دفاع ناقابل تسخیر بنا دیا ہے لیکن دفاعی صلاحیت معاشی ترقی کی ضمانت نہیں دے سکتی۔ ہمارا تیسرا اہم مسئلہ آبادی کا بے تحاشا پھیلائو?ہے۔ کوئی حکومت دو فیصد سالانہ کی شرح (سرکاری) سے بڑھنے والی آبادی کے سیلاب کی بنیادی ضروریات پوری نہیں کر سکتی۔ چوتھا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی معاشرت میں انفرادی خود کفالت پر نام نہاد اقدار اور فرسودہ رسوم کا بوجھ ڈال رکھا ہے۔ ملک کی نصف آبادی کو پیداواری عمل سے الگ رکھ کے معاشی ترقی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تو رہے وہ مسائل جنہیں ہم توجہ کے قابل بھی نہیں سمجھتے۔ اس پر ہم نے عجیب و غریب شوق پال رکھے ہیں۔ اخراجات اور آمدنی میں کوئی مناسبت نہیں۔

 درآمدات اور برآمدات میں خلیج ہے۔ وفاق کی اکائیوں میں مخاصمت کا زاویہ ہے۔ فیصلہ سازی غیر شفاف ہے۔ ریاستی اداروں پر اعتماد کی عدم موجودگی میں ریاستی عمل داری مخدوش ہے۔ سیاسی عمل اور قومی ترقی میں تعلق کمزور ہے۔ اس پر ہمارے مہربان کبھی امریکا پر الزام دھرتے ہیں، کبھی چین سے امید لگاتے ہیں، کبھی برادر اسلامی ممالک کی دہلیز پر جا بیٹھتے ہیں۔ عزیزو! مفت کی روٹیاں توڑنے کا وقت گزر گیا۔ دنیا ایک بڑے معاشی بحران کے دروازے پر کھڑی ہے اور کسی کو ہمارا نصابی بیانیہ سننے کا یارا نہیں۔ ہمیں اپنے ملک کے مسائل اپنے دستیاب وسائل کے درست استعمال ہی سے حل کرنا ہوں گے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔