عامر لیاقت کا پوسٹ مارٹم

امیر محمد خان، نواب آف کالا باغ یاد آگئے ۔ان کی لاش کا بھی پوسٹ مارٹم نہیں کیا گیا تھا۔ قتل کا کیس جب عدالت میں پہنچا تو عدالت نے پولیس سے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ مانگی۔ پتہ چلا کہ پولیس نے لاش کا پوسٹ مارٹم ہی نہیں کرایا بلکہ پولیس والوں نے تو لاش دیکھی ہی نہیں ۔انہیں خود ہی گھر والوں نے خاموشی سے دفن کردیا تھا۔

عدالت نے پولیس کو فوری طور پر پوسٹ مارٹم کا حکم دیا۔ پہلے تو کوشش کی گئی کہ کسی طرح جج صاحب یہ حکم واپس لے لیں مگرجب دیکھا گیا کہ جج صاحب پوسٹ مارٹم پر بضد ہیں تو کوئی دو ہزار سے زائد خط لکھوائے گئے کہ اگر نواب صاحب کی لاش کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تو ہم لوگ نواب صاحب کی لاش کی بے حرمتی پر بہت خوفناک احتجاج کریں گے ۔ پھر یہ خط تین لوگوں کے حوالے کیے گئے ۔

ایک آدمی ماڑی انڈس سے بھکر تک جتنے اسٹیشن آتے ہیں ہر سٹیشن پر اترتا تھا اور چار پانچ خط پوسٹ باکس میں ڈال کر پھر ٹرین پر بیٹھ جاتا تھا۔

دوسرے آدمی کی ڈیوٹی اسی طرح میانوالی سے سرگودھا تک تھی ۔ تیسرے آدمی نے ماڑی انڈس سے بنوں تک یہی کام کیا۔ یوں جب سینکڑوں خطوط پہنچے تو حکومت نےمجبور اًنقض امن کے خطرے کے پیش نظر عدالت سے درخواست کی کہ وہ لاش کا پوسٹ مارٹم نہ کرائے ۔

سو مقدمہ آگے نہ بڑھ سکا اور نواب صاحب کے قاتل رہا ہو گئے جو ان کا اپنا خون تھے ۔یہ سارا قصہ مجھے عامر لیاقت کی ناگہانی موت کے سلسلے میں یاد آیا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ عامر لیاقت کو قتل کیا گیا ہے یا اس میں اس کے عزیزوں کا کوئی ہاتھ ہے لیکن ہر ممکن یہ کوشش کہ عامر لیاقت کا پوسٹ مارٹم نہ کیا جا ئے معاملہ کو مشکوک کرتا چلا جارہا ہے ۔ ورثا کے کہنے پر عامر لیاقت کی تدفین پوسٹ مارٹم کے بغیر کی گئی ۔کیوں۔

اس میں قانون کیا کہتا ہے ۔ اطلاعات کے مطابق پولیس چاہتی تھی کہ پوسٹ مارٹم کیا جائے جو جناح اسپتال کراچی میں ہونا تھا مگر خاندان کے کچھ افراد اُن کی میت وہاں سے لے گئے۔ جس پر پولیس نے اعتراض کیا تو عامر لیاقت کی سابقہ اہلیہ کی طرف سےسوشل میڈیا پر پیغام دیا گیا کہ ان کے وارثین بیٹا احمد عامر اور بیٹی دعائے عامر نے پوسٹ مارٹم سے منع کیا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ورثا کی مرضی کے بغیر کسی کا پوسٹ مارٹم ہوسکتا ہے یا نہیں ۔پچھلے ہفتے جوڈیشل مجسٹریٹ نے عامر لیاقت کی قبر کشائی اور پوسٹ مارٹم کا حکم دیا تو ورثا سراپا احتجاج بن گئے۔ وہ اس حکم کے خلاف ہائی کورٹ میں چلے گئے کہ ہم نے پوسٹ مارٹم نہیں ہونے دینا۔ جوڈیشل مجسٹریٹ کے حکم پر چھ رکنی میڈیکل بورڈ بنایا گیا تھا جس نے 23 جون کو پوسٹ مارٹم کرنا تھا۔

اس حکم نامے کے خلاف ہائی کورٹ میں ورثا کا مؤقف یہ تھا کہ پوسٹ مارٹم سے عامر لیاقت کی میت کی بےحرمتی ہوگی جسے تسلیم کرتے ہوئے سندھ ہائیکورٹ نے مقامی عدالت کے فیصلے کو معطل کیا ہے۔ عدالت میں ورثا کا یہ موقف بھی تھا کہ مقامی عدالت نے پوسٹ مارٹم کا فیصلہ ایک غیر متعلقہ شخص کی درخواست پر کیا۔

جوڈیشل مجسٹریٹ نے اپنے حکم نامے میں کہا :عامر لیاقت کے ورثا کا مؤقف ہے کہ پوسٹ مارٹم سے قبر کی بےحرمتی ہوگی لیکن جب موت مشکوک ہو اور جرم کا بھی خدشہ ہو تو انصاف کے نظام کو حرکت میں آنا چاہیے، پس پردہ حقائق کو سامنے آنا چاہیے۔

عامر لیاقت کی موت کی وجہ تاحال معلوم نہیں ہوسکی اور عامر لیاقت کی موت کی وجہ پتہ نہ چلنے کی وجہ سے یہ سوال پیدا ہو گیا کہ موت قدرتی ہے یا نہیں۔ عدالتی حکم میں یہ بھی لکھا تھا کہ ’عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ عامر لیاقت کا پوسٹ مارٹم ناگزیر ہے تاکہ شکوک و شبہات کے بادل چھٹ سکیں‘۔

اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ گھر میں ہونے والی ناگہانی موت پر کیا ورثا کے اس حق کو تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ یہ ان کی مرضی ہے وہ لاش کا پوسٹ مارٹم کرائیں یا نہ کرائیں ۔ درخواست دہندہ کے مطابق جائیداد کا تنازعہ تھا اور پولیس نے جائے وقوعہ کا معائنہ بھی کیا تھا۔پولیس سرجن کا ورثا کے ساتھ رویہ بھی اچھا نہیں تھا۔

کیا اسے کسی بات کا شک تھا ۔وہ کیوں چاہتا تھا کہ لاش کا پوسٹ مارٹم کیا جائے۔ جہاں پوسٹ مارٹم میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس سے لاش کی بےحر متی ہوتی ہے تو میرے خیال میں اسلامی نقطہ نظر سے یہ بات درست نہیں۔

لاش کی بےحرمتی کے لیے بے حرمتی کی نیت ضروری ہے۔ اگر بہتری یا اچھائی کےلئے کسی لاش کا یا کسی جسم کا کوئی حصہ کاٹا یا چیرا جائے تو وہ بے حرمتی کے ذیل میں نہیں آتا ۔پرانے زمانے میں دشمن قتل کرنے کے بعد لاش کی باقاعدہ تذلیل کرتے تھے۔ اس بات سے اسلام نے سختی سے منع کیا ہے۔

آخر میں چند باتیں عامر لیاقت کے بارے میں۔ اگرچہ میری ان کے ساتھ ملاقاتیں زیادہ نہیں تھیں مگر ایک تعلق تھا وہ جب مدینہ شریف جاتے تو وہاں سے مجھے ضرور فون کرتے تھے۔

ضیا الحق نقشبندی جو ان کے ساتھ ایک طویل عرصہ تک رہے ان کے مطابق ’’عامر لیاقت ایک انتہائی سخی آدمی کا نام ہے، اللہ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے مراتب بلند کرے۔ ان کی بخشش کےلئے تمام احباب سے دعا کی اپیل ہے ۔‘‘uw


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔